اردو کی یہ ضرب المثل کہ ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری تو ھم نے سنا تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں نوشہرہ خیبر پختونخوا میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے پر روکنے کے خلاف دو سادہ لباس میں ملبوس فوجی افسران نے نہ صرف موقع پر متعلقہ موٹروے پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ بد تمیزی کی بلکہ بعد میں جوانوں کو بلا کر انھیں اٹک قلعہ لے گئے اور انھیں تقریباً چار گھنٹے حبس بیجا میں رکھا اور انتہائی توھین آمیز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ایک ٹریفک کی قوانین کی خلاف ورزی یا موٹروے پولیس پر تشدد کا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک ذھنیت کی عکاسی ہے جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ قومی ادارے کے افسران نے ایک انفرادی واقعے میں قومی ادارے کو ملوث کرکے نہ صرف اپنے ادارے پر لوگوں کو انگلی اٹھانے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ اس کو دو قومی اداروں کی عزت اور انا کا مسلہ بھی بنا دیا ہے۔ اس لئے عوامی سطع اور میڈیا میں اس حوالے سے بے لا گ تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور بدقسمتی سے نہ صرف ملوث افسران بلکہ ادارے کی لعنت اور ملامت بھی ھو رہی ہے۔
کیا قانون صرف عام لوگوں کیلئے ہے؟ کیا بااثر افراد یا یونیفارم والے لوگ ملکی قوانین سے مبرا ھیں ؟ کیا ان پر قانون کا احترام لازم نہیں ؟ کیا یہ حرکت اھم قومی اداروں کے افسران کے شایان شان ہے؟ کیا فورسز میں واقعی کوئی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم ہے؟ کیا کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسی حرکتوں کی گنجائش ہے یا اس کو برداشت کیا جاتا ہے؟ کیا قومی اداروں میں دیگر قومی اداروں کے لحاظ اور احترام کا یہ باعزت طریقہ رائج ہے؟ کیا سینیر آفسر کا کام اپنے جونئیر کو سمجھانا تھا یا قانون کو ھاتھ میں لینے میں ان کی مدد و معاونت ؟ اس واقعے سے ذھن میں یہ اور بہت سے ایسے سوالات جنم لے رہے ھیں۔ اور سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں کافی لے دے ھو رہی ہے۔ اور باشعور شہری اپنی ناراضگی اور غم و غصے کا اظہار اپنے اپنے انداز سے کرنے میں مصروف ھیں۔ سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر ملک کی سب سے با ڈسپلن فورس کی افسران کا قانون کے احترام اور لحاظ کا یہ حال ہے تو عام لوگوں سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قوم بجٹ کا اچھا خاصا حصہ فوج پر ملک کی دفاع اور دشمن کے ساتھ لڑنے کیلئے خرچ کر رہی ہے نہ کہ قانون کو توڑنے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں پر تشدد اور ان سے توہین آمیز سلوک کیلئے ۔
بااثر شخصیات کی جانب سے ٹریفک پولیس کو انتقام کا نشانہ بنانے کی روایت موجود ہے ۔ جب سے موٹروے پولیس نے فرض شناسی کا مثالی مظاھرہ اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرامد کرانا شروع کیا ہے تب سے موٹر وے پولیس کو بعض اوقات بااثر شخصیات کی مزاحمت اور انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ موٹروے پولیس کی نسبت عام ٹریفک پولیس کا برا حال ہے ۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ایک ایم این اے کے والد کی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کاٹنے والے ٹریفک اہلکار کا تبادلہ کیا گیا تھا ۔