Home / Urdu Corner / یونیفارم اور قانون کی بالادستی/ ایمل خٹک

یونیفارم اور قانون کی بالادستی/ ایمل خٹک

ایمل خٹک

ایمل خٹک 

اردو کی یہ ضرب المثل کہ ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری تو ھم نے سنا تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں نوشہرہ خیبر پختونخوا میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے پر روکنے کے خلاف دو سادہ لباس میں ملبوس فوجی افسران نے نہ صرف موقع پر متعلقہ موٹروے پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ بد تمیزی کی بلکہ بعد میں جوانوں کو بلا کر انھیں اٹک قلعہ لے گئے اور انھیں تقریباً چار گھنٹے حبس بیجا میں رکھا اور انتہائی توھین آمیز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ ایک ٹریفک کی قوانین کی خلاف ورزی یا موٹروے پولیس پر تشدد کا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک ذھنیت کی عکاسی ہے جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ قومی ادارے کے افسران نے ایک انفرادی واقعے میں قومی ادارے کو ملوث کرکے نہ صرف اپنے ادارے پر لوگوں کو انگلی اٹھانے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ اس کو دو قومی اداروں کی عزت اور انا کا مسلہ بھی بنا دیا ہے۔ اس لئے عوامی سطع اور میڈیا میں اس حوالے سے بے لا گ تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور بدقسمتی سے نہ صرف ملوث افسران بلکہ ادارے کی لعنت اور ملامت بھی ھو رہی ہے۔

کیا قانون صرف عام لوگوں کیلئے ہے؟ کیا بااثر افراد یا یونیفارم والے لوگ ملکی قوانین سے مبرا ھیں ؟ کیا ان پر قانون کا احترام لازم نہیں ؟ کیا یہ حرکت  اھم قومی اداروں کے افسران کے شایان شان ہے؟ کیا فورسز میں واقعی کوئی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم ہے؟ کیا کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسی حرکتوں کی گنجائش ہے یا اس کو برداشت کیا جاتا ہے؟ کیا  قومی اداروں میں دیگر قومی اداروں کے لحاظ اور احترام کا یہ باعزت طریقہ رائج ہے؟ کیا سینیر آفسر کا کام اپنے جونئیر کو سمجھانا تھا یا قانون کو ھاتھ میں لینے میں ان کی مدد و معاونت ؟  اس واقعے سے ذھن میں یہ اور بہت سے ایسے سوالات جنم لے رہے ھیں۔ اور سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں کافی لے دے ھو رہی ہے۔ اور باشعور شہری اپنی ناراضگی اور غم و غصے کا اظہار اپنے اپنے انداز سے کرنے میں مصروف ھیں۔  سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر ملک کی سب سے با ڈسپلن فورس کی افسران کا قانون کے احترام اور لحاظ کا یہ حال ہے تو عام لوگوں سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قوم بجٹ کا اچھا خاصا حصہ فوج پر ملک کی دفاع اور دشمن کے ساتھ لڑنے کیلئے خرچ کر رہی ہے نہ کہ قانون کو توڑنے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں پر تشدد اور ان سے توہین آمیز سلوک کیلئے ۔

بااثر شخصیات کی جانب سے ٹریفک پولیس کو انتقام کا نشانہ بنانے کی روایت موجود ہے ۔ جب سے موٹروے پولیس نے فرض شناسی کا مثالی مظاھرہ اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرامد کرانا شروع کیا ہے تب سے موٹر وے پولیس کو بعض اوقات بااثر شخصیات کی مزاحمت اور انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ موٹروے پولیس کی نسبت عام ٹریفک پولیس کا برا حال ہے ۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ایک ایم این اے کے والد کی ٹریفک قوانین کی خلاف  ورزی پر چالان کاٹنے والے ٹریفک اہلکار کا تبادلہ کیا گیا تھا ۔

ٹریفک  چالان کاٹنے والے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بیچ معاملات کو اداروں کی انا کا مسلہ بنانا اور غیر ضروری طور پر ایک زاتی مسلے پر قومی اداروں کو ملوث کرنے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ حتی کہ خلاف ورزی کرنے والے یونیفارم میں نہیں بلکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے ۔ نہ صرف دو افسران کے غلط روئے اور بدسلوکی نے اس واقعے کو اداروں کے درمیان لڑائی کی شکل دینے کی کوشش بلکہ ایک قومی ادارے کو اپنی ذاتی انا کی تسکین کیلئے بھی استعمال کیاگیا۔ ایک قومی ادارے کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی گئ ۔ کیونکہ موٹروے پولیس کے اہلکاروں کو اپنے زاتی گھر وغیرہ نہیں لیجایا گیا بلکہ فوجی یونٹ لیجایا گیا ۔ ان کے رشتہ دار یا قریبی عزیز یا زاتی ملازم نہیں بلکہ ایک سینئر افسر جس کا اس واقعے سے کوئی براہ راست تعلق بھی نہیں بنتا کی زیر نگرانی فورسز کے اہلکار سرکاری گاڑیوں میں انھیں لے کر گئے۔  ان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کے علاوہ  ان پر وہاں تشدد کیا گیا ۔ اس طرح قانون شکنی کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ ادارہ جاتی یکجہتی کا بد ترین مظاہرہ بھی تھا ۔ لہذا اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

مہذب معاشروں میں قانون کا احترام بلا استثنی سب پر لاگو ھوتا ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ ڈسپلن فورس کے افسران سے اس قسم کے روئے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ قانون قانون ھوتا ہے اور قانون شکنی قانون شکنی ۔ چاہے قانون کی خلاف ورزی کرنے والہ ایک  عام شہری ھو یا کوئی سرکاری ملازم یا اعلی افسر۔  اگر پاکستان میں کوئی قانون نام کی چیز نہ ھو یا عام شہری کیلئے الگ قانون ھو اور خواص کیلئے الگ تو پھر ایسے واقعات پر کسی کو اعتراض نہیں ھوگا۔   اور اگر تمام شہریوں کیلئے ایک جیسا قانون موجود ہے اور قانون کا احترام تمام شہریوں پر فرض ہے تو پھر ایسے واقعات کی روک تھام کی ضرورت ہے۔

یہ موجودہ فوجی قیادت کا بھی ایک امتحان ہے کہ وہ اس ٹیسٹ کیس کو کس طرح ڈیل کرتے ھیں ۔ آیا اس کو ایک معمولی کیس سمجھ کر دبایا جائیگا ۔ روایتی طریقے سے صلح صفائی اور مک ملا کرکے اور منت سماجت یا بالواسطہ یا بلاواسطہ دباو ڈال کر حل کیا جائیگا یا اس کو ایک سبق آموز کیس بنایا جائیگا۔ خلاف ورزی اور پھر سینہ زوری کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔  تاکہ باقی سرکاری آفسران کیلئے بھی ایک مثال قائم ھو ۔ اور ھر سطح پر قانون کے احترام اور بالادستی کی رحجان کی حوصلہ افزائی ھو۔

سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ کار ایمل خٹک  اخبارات اور جرائد میں انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے رہتے ھیں ۔ ان کا رابطہ ایمیل یہ ہے

aimalk@yahoo.com

دی پشتون ٹائمز

About The Pashtun Times

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

x

Check Also

پشتون تحفظ تحریک: پس منظر و مختصر تعارف

تحریر: سنگین باچا 26 جنوری 2018ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ’محسود تحفظ ...