ابتدا، ابتدایی معلومات سے؛ پاکستان کی طرف سے یہ پروجیکٹ وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کے وزیر احسن اقبال اور چین کی طرف سے national development and reform commission NDRC سنبھال رہے ہیں۔ یہ پروجیکٹ آصف علی زرداری کی حکومت میں شاہ محمود قریشی کے دورمیں پاس ہوا تھا۔ جس میں صرف ایک ہی روٹ کا ذکر ہوا تھا جسے ہم مغربی روٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ حسن ابدال سے براستہ فتح جنگ میانولی ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب کوئٹہ خضدار سے گوادر تک کو مغربی روٹ کہا جاتا ہے۔ اس روٹ میں ایک مکمل پیکیج ہے، جس میں (1) ریل وے، (2) موٹروے 6 لاین، (3) بجلی کے منصوبے، (4) انڈسٹریل زون، (5) ایل این جی LNG پائپ لائن، (6) ٹرانسمیشن لاينز کی تبدیلی، (7) تیل گیس پائپ لائن، (8) آزاد تجارتی مرکز، (9) فائبر آپٹک کیبل شامل ہیں۔
پھر اب اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور مین روٹ پورے پیکیج کے ساتھ پنجاب کو دیے دیا گیا ہے۔ بلوچستان اور پختونخواہ کو صرف ایک کنیکٹ روڈ کے نام پر ٹھگا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے پہلی میٹنگ جسے Working Group First Meeting کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، 9 جنوری تا 11 جنوری 2014 پاکستان میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں پہلی بار بنا کسی سیاسی پارٹی کو بتائے، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس روٹ کو تبدیل کردیا تھا. یہ کہہ کر کہ مغربی راستہ غیر محفوظ ہے۔ اس روٹ کو حسن ابدال سے براستہ لاہور، ملتان، کراچی اور کراچی سے براستہ کوسٹل ہائی وے گوادر تک کر دیا۔
اس کے بعد اس پروجیکٹ کے بارے میں مختلیف رائے دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو جوائنٹ کاپوریشن کمیٹی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اس کمیٹی کی صدارت چین کی طرف سے (Wang Xiaotao) اور پاکستان کی طرف سے احسن اقبال کر رہے ہیں۔ جی سی سی (JCC) کی اب تک پانچ میٹیگز ہو چکی ہیں۔ پہلی میٹیگ 27 اگست 2013 کو اسلام آباد میں ہوئی۔ دوسری، تیسری اور چوتی میٹیگ Bhejing چین میں 9 فروری 2014، 27 اگست 2014 اور 25 مارچ 2015 کو ہوئی اور آخری میٹنگ کراچی 12میں نومبر 2015 کو ہوئی۔
مختلف رپورٹوں کی بنیاد پر یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان میٹنگز میں دو صوبوں کی مخالفت کو چین سے چھپایا گیا ہے۔ چین کی طرف سے جو بریفنگز دی گئی ہیں ان میں کہیں بھی مغربی روٹ کا ذکر تک نہیں۔ چین نے یہ اقتصادی روٹ اپنے ان علاقوں کے لیے بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو باقی ملک کے علاقوں سے پیچھے ہیں جہاں کے لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر ہماری حکومت کو یہ منطق سمجھ آ جائے تو سارا معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔
28 مۂی 2015 کو جو APC بلائی گئی تھی اس میں وزیرعظم پاکستان نواز شریف نے ساری قوم کے سامنے سب سے یہ وعدہ کیا تھا کہ سب سے پہلے مغربی روٹ بنے گا لیکن ہمیشہ کی طرح یہ بس دھوکے کی حد تک رہا۔ اور مشرقی روٹ کو زیادہ ترجیح دی گئی۔ چھ سو ستاسٹھ ارب روپےلاہور سے کراچی کے موٹروے پر لگائے گئے ہیں، یہ وہی ہائی وے ہے جسے CPEC Balochistan کے نام سے منتخب کیا گیا ہے اور وزیرعظم صاحب اس روڈ کا افتتاح بھی کر چکے ہیں۔ اسلام اباد تا لاہور کا حصہ پورا ہو چکا ہے جس پر اربوں کھربوں لگائے جا چکے ہیں۔
ایک بات کی یاد دیہانی کراتا چلوں، جی ٹی روڈ اور ریلوے ٹریک پہلے سے ہی پنجاب کے پاس ہے۔ آئین کے مطابق مشترکہ مفاد کونسل میں ہر تین ماہ بعد ایک میٹنگ بلائی جاتی ہیں۔ لیکن تین سال سے اب تک ایک بھی میٹنگ نہیں بلائی گئی۔ بلوچستان اور پختونخواں سے اصل فنڈز چھپائے جا رہے ہیں اور MOU’s بھی اب تک سامنے نہیں لائیں گےاور یہاں کے لوگوں کی آنکھوں پر بھی پٹی باندھی گئی ہے۔
فیڈرل پی یس ڈی پی PSDP 2015 2016 کے تحت 30 دسمبر 2015 کو افتتاح کیے گئے پراجیکٹس میں بلوچستان کے صرف دو پروجیکٹ میں 13 ارب لگ رہے ہیں اور دوسری طرف مشرقی لائن میں صرف تین پروجیکٹز میں CPEC کے538.3 ارب روپے اب تک خرچ ہوئے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی کی جارہی ہے کہ چین انویسٹ منٹ خود لگائے گا۔ یہ صاف جھوٹ ہے۔ چین پاکستان کو اپنے انویسٹرز کی لسٹ دے گا اور پر پاکستان خود انویسٹ منٹ کے مقامات کا تعین کرے گا۔
اورنج لائن کا بھی بہت چرچا رہا کہ حکومت اپنے فنڈز سے لگا رہی ہے۔ یہ اورنج پروجیکٹ کا مشورہ ورکنگ گروپ کی میٹنگ میں دیا گیا تھا اور بعد میں آخری جی سی سی کی میٹیگ میں یہ پروجیکٹ پاس کردیا گیا تھا۔ اس کی لاگت US $ 1.626 billion ہے۔ اس کے علاوہ انرجی پلانٹس کو بھی پہلی جی سی سی میٹیگ میں پاس کروا لیا گیا تھا۔ رپورٹس کی بنیاد پر Working Group Meeting میں لاہور تا کراچی موٹروے کو ملتان، سکھر سیکشن سے بھی ملانے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہ پہلی بار نہیں کے پنجاب چھوٹے صوبوں کا حق کھا رہا ہے۔ پہلے بھی کافی دفعہ کا چکا ہے لیکن اس بار دن کی روشنی میں چوری کر رہا ہے۔ ہم بلوچ پشتون کو چاہیے کہ اس بار صاف صاف پنجاب حکومت کو آنکھ دکھا کر بولیں کہ فیصلہ کر لیں کہ کیا چاہیے بلوچستان اور پختونخوا کی سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ سڑکوں پر نکلیں اور حکومت کو یہ دکھا دیں کہ ہم مری ہوئی قوم نہیں۔ اگر شرافت سے حق نہیں دے سکتے تو ہمیں چھیننا بھی بہ خوبی آتا ہے۔
میں گزارش کروں گا بلوچستان اور پختونخواہ کے عوام اور سیاسی تنظیموں سے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدہ لیں کیوں کہ یہ ہماری قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ کل یہ نہ ہو کہ ہمارے بچے اپنی بدحالی کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں۔