انگریزی روزنامہ میں شائع شدہ حالیہ خبر سے ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔ کیا خبریں صرف سویلین لیک کر رئے ھیں یا فوجی اور انٹلی جنس حلقوں کی طرف سے بھی خبریں لیک ھوتی ہے ؟ اگر اھم اجلاسوں کی خبروں کی لیک ھونا قابل جرم ہے تو اس حوالے سے ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ کیا ڈان کی لیک شدہ خبر سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے یا فائدہ ؟ خبر کی ریکارڈ مگر متضاد تردیدوں کے پیچھے کیا عوامل تھے ؟ یہ اوراس قسم کے بہت سے سوالات آجکل عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔
خبر لیک کرنے والے صحافی کا نام تو ایگزٹ کنٹرول سے خارج ھو جائیگا مگر حکومت سخت آزمائش میں ہے کیونکہ فوجی قیادت خبر لیک کرنے والے زرائع کو تلاش کرنے اور اسے سزا دینے پر زور دے رہی ہے اور عموما ایسی خبریں کوئی گھر کا بھیدی ہی لیک کرسکتا ہے۔ بعض زرائع تو یہ دعوی بھی کرتے ھیں کہ متعلقہ اداروں نے حکومت کو شواہد بھی فراہم کئے ھیں۔
موقر انگریزی روزنامہ ڈان میں قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اھم اجلاس کی خبر لیک ھونے اور اس کے خبر رپورٹ کرنے والے صحافی کے خلاف کاروائی سے ایک وسیع قومی بحث شروع ھو چکی ہے ۔ پاکستان میں میڈیا لیکس تواتر سے حکومت اور سیاستدانوں کی کردار کشی اور بلیک میلنگ کیلئے استعمال ھو رہی ہے۔ میڈیا میں گند تو پہلے سے موجود تھا مگر اس میں اضافے سے اس کی بد بو اتنی پھیلی کہ گند اب صاف دکھائی دیا جانے لگاہے۔
پاکستان میں صحافت حکومت اور ریاستی اداروں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ پہلے حکومت وقت اور ریاستی اداروں کے مفادات میں عموما یکسانیت رہتی تھی۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے خاص کر منتخب جمہوری ادوار میں کچھ ریاستی اداروں کے مفادات بعض اوقات حکومت کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ماضی میں کئی دفعہ یہ ادارے اپنے پروردہ میڈیا اور سیاستدانوں کے زریعے اور تو اور منتخب صدر اور وزیراعظم تک کو سیکورٹی رسک قرار دیے چکے ھیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو یہ تمغے وصول کرنے والوں میں شامل ھیں۔
موجودہ حکومت اور بعض ریاستی اداروں کی درمیان کئی داخلی اور خارجی مسائل پر اختلاف نظر موجود ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں سیاسی قیادت کو راہ راست پر لانے کیلئے کئی مجرب نسخے آزمائے گئے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ نوازشریف کی حکومت کوئی آئیڈیل حکومت نہیں اور نہ اس ملک میں صرف سیاستدان بدعنوان ہے۔ بلکہ یہ بیماری معاشرے کے رگ رگ میں پھیل چکی ہے ۔ فیلڈ مارشل آیوب خان سے لیکر ابھی تک کئی جرنیلوں کے کرپشن کےاسکینڈل زبان زد و عام ہے ۔ البتہ کرپشن کے طریقے مختلف ھو سکتے ھیں۔
حامد میر پر حملے اور اس پر جنگ گروپ کے اسٹینڈ لینے کے بعد اور پھر دھرنے کے دوران میڈیا میں آزاد اور ریاست کی پروردہ میڈیا کے تقسیم انتہائی واضع ھوگئ۔ ریاستی ادارے میڈیا کی باھمی اختلافات اور چپقلشوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ اس طرح ایک طرف صحافیوں کی آپس کی پیشہ وارانہ حسد اور مقابلہ بازی اور دوسری طرف مالکان کی کاروباری رقابتوں سے بری طریقے سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور نہ صرف ان کو ایک دوسرے کے خلاف بلکہ سیاستدانوں کی کردار کشی اور تقسیم کرو اور لڑاؤ کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ذاتی قسم کی معلومات یا ذرائع کمیونیکشن جس تک میڈیا کی رسائی کم ھوتی ہے کی خبریں بھی میڈیا پر چلتی رہتی ہے۔ اخباری معلومات اور انٹلی جنس معلومات میں کافی فرق ھوتا ہے۔ میڈیا معلومات کو اپنے انداز میں استعمال کرتا یا بروئے کار لاتا ہے۔ بہت ذاتی یا ٹیکنیکل قسم کی معلومات مثال کے طور پر کسی فرد کی ٹیلی فون یا نیٹ وغیرہ تک رسائی وغیرہ عام طور پر صحافیوں کی دسترس سے باھر ھوتی ہے مگر انٹلی جنس اداروں کے دسترس میں ھوتی ہے۔
عموما سینئیر صحافیوں کو خبر سے اور اس میں دی گئی معلومات سے پتہ چل جاتا ہے کہ معلومات کے زرائع کون ھوسکتے ھیں۔ مثلا” اگر خبر لگتی ہے کہ کسی خاص کارخانے میں کتنے انڈین کام کر رہے ھیں تو یہ ایک عام صحافیانہ خبر ہے لیکن اس خبر میں اگر یہ معلومات دی جائے کہ اس میں کتنے جاسوس یا ان کے کس کس کے ساتھ ٹیلی فون وغیرہ کے رابطے ھیں تو یہ عام طور پر صحافیانہ معلومات نہیں ھو سکتی ۔ اگر کوئی صحافی بڑی وثوق سے کسی کی ٹیلی فون گفتگو یا نیٹ پر بات چیت کا حوالہ دیتا ہے تو عام حالات میں یہ اس بات کی گواہی ہے کہ خبر کے زرائع انٹلی جنس زرائع ھیں ۔ جو یا تو صحافی نے پیشہ وارانہ مہارت سے نکالی ہے یا انہوں نے کسی مقصد کیلئے لیک کی ہے۔ اچھا جو خبر لیک خبر ھوتی ہے اس میں دئیے گئے زاویوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔
حامد میر پر قاتلانہ حملے اور بعد میں دھرنے کے دوران صحافت میں پہلے سے موجود گند میں اضافہ ھوتا گیا اور اس کی بدبو اتنی زیادہ پھیلی کہ اب ناقابل برداشت ھوگئ ہے۔ صحافت کی تنزلی کا یہ حال ہے کہ غیر جانبداری اور حقائق نگاری اب قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔ اینکرز صحافی سے زیادہ جوشیلے سیاسی ورکرز لگ رہے ھیں ۔ اب میڈیا میں جس قسم کی بلیک میلنگ اور شخصی مفادات کے حصول کیلئے گھٹیا حربے استعمال ھو رئے ھیں اس کے سامنے زرد صحافت اور لفافہ صحافت کے اصطلاحات کی کوئی وقعت نہیں رہی۔
باقی تو چھوڑیے اگر حالیہ دو اجلاسوں کی لیکس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکارا ھو جاتی ہے کہ ایک ہی عمل یعنی میڈیا لیکس ھوا ۔ ایک پر نوٹس لیا جا رہا ہے اور دوسری پر خاموشی ہے ۔ ڈبل اسٹینڈرڈ ملاحظہ کیجئے کہ ایک قومی سلامتی کے اجلاس کی لیک جو غا لب امکان یہ ہے کہ شاید سویلین کی طرف سے آئی ھو جو زیادہ تر انسداد دھشت گردی پر بحث اور اس کے طریقہ کار پر فوجی اور سویلین قیادت میں اختلاف نظر کے بارے میں تھی جبکہ دوسرے اجلاس کی لیک جس میں لیک کرنے والوں نے فوجی زرائع کے حوالے دئیے ھیں فوج کی طرف سے آئی ھے جو کہ سویلین قیادت کو فوجی قیادت کی جانب سے شفٹ اپ کال دینے کے بارے میں تھی ۔ پاکستان میں میڈیا کی جو سیاسی صف بندی ہے اس میں جس چینل سے جس زریعے سے خبر لیک ھو رہی ھو تو سورس یعنی معلومات کے زرائع کا فوری پتہ چل جاتا ہے۔
اگر کسی بھی عام پاکستانی سے پوچھا جائےتو فورا بتا دیتا ہے کہ کونسا چینل حکومت مخالف اور کونسا صحافی یا اینکر کس کا حامی یا کس کی بولی بول رہا ہے ۔ بول سے یاد آیا کہ اس دوران کچھ میڈیا گروپوں کو لگام ڈالنے اور اجارہ داری ختم کرنے کیلئے بول کے نام سے بھی ایک تجربہ کیا گیا مگر فلاپ رہا ۔
بہت سے لوگ میڈیا کی آپس کی لڑائی کو حکومت اور حزب اختلاف کی چپقلش کے تناظر میں دیکھتے ھیں حالانکہ اس طرح نہیں۔ یہ لڑائی دراصل جموریت پسند اور جموریت دشمن قوتوں کی لڑائی ہے ۔ اور جموریت دشمن قوتیں نہ صرف میڈیا بلکہ سیاستدانوں کو بھی استعمال کر رہی ہے ۔ بنیادی مقصد معاشرے پر اپنی گرفت برقرار رکھنا اور مضبوط کرنا ہے۔ ان کو جمہوری روایات اور جمہوری نظام کی مضبوطی سے خوف آتا ہے کیونکہ پھر سوال اٹھتے ھیں اصلاح احوال کی بات ھوتی ھے۔ قانون اور آئین کی بالادستی کی بات ھوتی ہے ۔ اور جب ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی قائم ھوگی تو لازمی طور پر پھر عوام کی منتخب اداروں کی بالادستی تسلیم کرنا پڑئیگی ۔ دیگر جمہوری ممالک کی طرح پھر سویلین کے ماتحت کام کرنا ھوگا جو ھمارے پس منظر میں بعض ریاستی اداروں کو بالکل قابل قبول نہیں ۔ اس وجہ سے جمہوری اور منتخب حکومتوں کے خلاف ریشہ دوانیاں چلتی رہتی ہے تاکہ خود کو مسیحا اور فرشتے او انھیں نااہل اور بدعنوان ثابت کرے۔
ایک طرف طاقتور حلقوں کی ریشہ دوانیاں اور دوسری طرف خود سیاستدانوں کی بیوہ قوفیوں اور نا اہلی کی وجہ سے ملک میں جمہوری تجربے کچھ زیادہ کامیاب نظر نہیں ھیں۔ اکثر کیسوں میں نہ تو حزب اقتدار اور نہ حزب اختلاف سیاسی سوجھ بوجھ اور سنجیدگی کا مظاھرہ کرتی ہے اور اپنی زیادہ تر توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کرتی ہے۔ مطلق العنان رویے، اناپرستی اور مفاد پرستی سیاسی راھنماوں کی سیاسی ساکھ اور شہرت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں ابھی تک میڈیا آزاد نہیں اور دوسرا غیر جانبدار اور ذمہ دار رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تعداد کم ھو رہی ہے۔ زاتیات سے بالا تر ھو کر یا کسی جمہوریت دشمن قوت کا آلہ کار بننے کی بجائے جمہوری اقدار اور کلچر کی فروغ کیلئے کام کرنے کی روایت کم ھوتی جارہی ہے۔ آزاد ، غیر جانبدار ، ذمہ دار اور پیشہ ور صحافت کیلئے ضروری ہے کہ صحافی صحافت کے مروجہ اصولوں اور ضابطہ اخلاق کا احترام اور پاسداری کرے۔
ایمل خٹک
سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ کار ایمل خٹک اخبارات اور جرائد میں انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے رہتے ھیں ۔ ان کا رابطہ ایمیل یہ ہے