ملالہ یوسفزئی میرے لئے کوئی نظریاتی، سیاسی ، مذھبی یا نسلی حوالہ نہیں بلکہ دہشت گردی خلاف اس غیر معمولی جرات اور مزاحمت کی علامت ہے، جب پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے والے دشمن کے دانت اکھٹے کر نے اور آنکھیں نکالنے والی قوم مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے بلکل بے بس تھی اور لاچار ہوگیی تھی۔ تو ایسی صورتحال میں ملالہ یوسف زئی باقاعدگی سے بی بی سی کیلئے ڈائری لکھہ کر ظالمان کے ظلم و ستم سے پوری دنیا کو آگاہ کرتی تھی۔
کچھ دن پہلے ملا لہ یوسفزئی کا پشاور زلمی کی ایمبسیڈر نامزدگی کو لیکر آج ایک بار پھر مستقبل کے اندیشوں اور بے بنیاد کہانیوں کی بنیاد پر ملالہ مخالف مہم کو سوشل میڈیا پر منظم کیا جا رہا ہے اس کے پیچھے وہی پرانے حب الوطنی کے ٹھیکیدار ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں نفرت پر استوار حب الوطنی کے مختلف پیمانے ہیں.انگریز وں سے میراث میں ملنے والی سیاست دانوں، جاگیرداروں اور جرنیلوں کو اپنا نجات دہندہ سمجنے والے بہت سارے لوگ ملالہ سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ بقول انکے انگریز اور امریکی اس بچی کو مستقبل میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرینگے۔
مستقبل کا تو کسی کو نہیں معلوم لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں جو سدا انگریزوں کے وفادار رہے ان سے ہماری محبت ، احترام اور عقیدت کا یہ حال ہے کہ کسی کو بابائے قوم تو کسی کو قومی شاعر مانتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی نسبت کو ملالہ کے خلاف شکوک و شہبات پیدا کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
کل جب سوشل میڈیا پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے پشتون کارکن ملالہ مخالف کمپاین چلا رہے تھے، تو ان کی لیڈر شپ دنیا کے سامنے کچھہ اور کہتی رہی.. مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے راہنما قاضی حسین احمد نے ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۲ کو اپنے کالم.میں لکھا ” کون ایسا شقی القلب انسان ہوگا جو 14 سال کی ایک معصوم بچی پر سفاکانہ قاتلانہ حملے کیلئے وجہ جواز تلاش کر ے گا۔ انسانی تہذیب، اسلامی تعلیمات اور پختون روایات میں دوران جنگ بھی جنگ سے کنارہ کش عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ایک شرمناک فعل ہے” آگے لکھتے ہیں ” ملالہ اور اسکول کی وین پر مذموم قاتلانہ حملہ فوجی چوکی کے قریب کیا گیا اور حملہ آور بھاگ نکلے،” جماعت اسلامی کے سابقہ امیر کے بر عکس جماعت کے ہر کارکن نے سوشل میڈیا پر ملالہ پر حملہ جھوٹ ثابت کرنے اور اسے ایجنٹ ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ مہم چلائی اور لوگوں کے ذہن میں شکوک و شہبات پیدا کرتے رہے.
اسی طرح تحریک انصاف کے عمران خان کچھہ کہتے رہے اور تحریک انصاف پشتونخوا کی قیادت اور پشتون کارکن کچھہ اور کرتے رہے
عمران خان نے ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۲ کو ٹیلی گراف میں لکھا”
Two days after Malala Yousafzai was shot in the head by militants from the Pakistani Taliban, I sat with her father outside the intensive care unit in Peshawar while she fought for her life. In a war in which there have been so many tragic things to come to terms with, seeing her lying there unconscious and gasping for breath was by far the most shocking.
Her shooting went not only against the teachings of Islam, but also against Pashtun traditions, in which you would never think of hurting a woman – let alone a 14-year-old girl on her way home from school. As a father, naturally I pictured one of my own children lying in that hospital. What happened to her was against all human emotion.
But now Malala has become a symbol of Pakistan. She is a role model, someone who stood up for education at a time when schools were being blown up. The area in which she lived, the Swat Valley, had been taken over by the Taliban, who opposed Western education. They thought it was polluting the minds of girls, in particular, and banned them from going to school. Malala opposed this. And for doing so, she was singled out and shot.”
اگر سوشل میڈیا میں ملالہ مخالف کمپاین میں تحریک انصاف کے پشتون کارکن سب سے آگے تھے تو خیبر پختونخوا تحریک انصاف کی حکومت بھی پیچھے نہ تھی. صوبائی حکومت کی جانب سے نہ صرف ملالہ یوسفزئی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی روکی گئی بلکہ صوبائی اسمبلی میں ملالہ کے نام پر یونیورسٹی بنانے کی بھر پور مخالفت بھی کی گئی .ستم دیکھئے کہ پنجاب حکومت نے ملالہ کے نام پر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا۔