مذھب اور علماء کا قول و فعل دو الگ الگ چیزیں ھیں ۔ خرابی اس وقت پیدا ھوتی ہے جب ویسٹڈ انٹرسٹ یا مفادی حلقے دونوں کو خلط ملط کرتی ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں چاہے مذھبی ھو یا غیر مذھبی کوئی بھی طبقہ بشمول علماء کرام مادر پدر آزاد نہیں ھوتے ۔ وہ مروجہ قوانین ، اخلاقی اقدار اور ضابطوں کے پابند ھوتے ھیں۔ قوم غلط طرزعمل پر ان سے سوال کرنے کا حق رکھتی ہے۔ ان کے محاسبے کا حق رکھتی ہے۔ ملک میں مذھبی انتشار اور منافرت کی موجودہ خطرناک صورتحال کے پیش نظر مذھبی طبقے میں موجود بعض منفی رحجانات پر بات کرنے اور بحث کرنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے ۔
اصلاح احوال کیلئے ان منفی مذھبی رحجانات کی نشاندہی کرنا اور اس کو سامنے لانا اب ضروری ھوگیا ہے ۔ اس میں مزید تاخیر یا مصلحتوں کے تحت خاموش رہنا مزید تباہی اور بربادی کا باعث بنے گا ۔ اب قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ تباہی اور بربادی کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے یا روکنا ہے۔ مذھب کا سیاسی یا ذاتی مفاد کیلئے غلط استعمال کو روکنا ھوگا ۔ مذھبی منافرت ، فرقہ واریت اور تشدد کے رحجانات کی حوصلہ شکنی کرنا ھوگی ۔ علماء کی عزت نفس کا بھی یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے منصب کے شایان شان طرزعمل اختیار کرے کہ وہ عوام کو اپنے کردار پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ دیں۔
علماء پر تنقید مذھب پر تنقید نہیں ھوتی البتہ یہ اور بات ہے کہ بعض مفادی حلقے جو عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے ھیں اور جوابدہی اور احتساب کے عمل سے ڈرتے ھیں تو اس کو اس طرح پیش کرتے ھیں ۔ اور عوامی تنقید سے بچنے کیلئے علماء پر تنقید کو مذھب پر تنقید کے مترادف ٹہراتے ھیں۔ چاہے مذھب ھو یا سوشل سسٹم معاشرے میں قانونی اور اخلاقی ضابطوں اور اقدار کی پاسداری کا درس دیتے ھیں۔ ذمہ دارانہ روئے اور دوسروں کی جان و مال کے تحفظ کا درس دیتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے سیاسی اور سماجی طاقت کے حصول کے بعد کچھ سماجی گروہ من مانی پر اتر آتے ھیں اور ذاتی یا گروہی مفاد کے زیر اثر قانون یا اخلاقی ضابطوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ھیں ۔ اپنے آپ کو ھر قسم کے قوانین اور ضابطوں سے مبرا سمجھتے ھیں ۔ اور بعض اوقات اپنی سیاسی اور سماجی قوت کی بنیاد پر بلیک میلنگ ، دھونس دباؤ اور من مانی کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔
مشال خان کے کیس میں مردان کے کچھ علماء کی جانب سے ایک نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی کا قیام دراصل بلیک میلنگ کی ایک انتہائی کوشش تھی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سو موٹو ایکشن کے بعد اور ایک جوائینٹ تحقیقاتی ٹیم کے قیام کے بعد جبکہ اس کی تحقیقاتی رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی تھی کہ ایک متنازعہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جو مشال خان کیس کی تعقیقات پر اثر انداز ھونے کی ناکام کوشش تھی ۔
اگر ان علماء کرام کو اپنے الزامات کی صداقت اور سچائی پر یقین ھوتا تو شاید وہ رپورٹ آنے کا انتظار کرتے مگر کمیٹی نے ابھی کام بھی شروع نہیں کیا تھا کہ ایک نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ۔ پاکستان جیسے ایک کٹر اسلامی معاشرے میں تیرہ رکنی جی ٹی آئی سے جس کے تمام تر اراکین مسلمان ھو یہ توقع رکھنا کہ وہ میرٹ سے ھٹ کر توھین رسالت کے مرتکب فرد کے حق میں فیصلہ دینگے ناممکنات میں سے ہے ۔ یہاں تو الٹا بعض ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق تنظمیں یہ تنقید کرتے ھیں کہ پاکستان میں ایسے کیسوں میں میرٹ پر نہیں بلکہ جذبات کے رو میں اور مذھبی تعصب کی بنیاد پر فیصلے ھوتے ھیں ۔
مشال خان کیس میں بعض علماء کرام کا یہ طرزعمل انتہائی غیر ضروری اور بیجا تھا ۔ پتہ نہیں مذھب کے ان شیدائیوں نے ایک بے قصور فرد کو قصوروار ٹہرانے کی کوشش کرکے مذھب کی کیا خدمت کی ھوگی البتہ اس عمل سے انہوں نے ملک بھر میں عوامی غم وغصے کو دعوت دی اور اسے ابھارا ۔ ھر طرف سے ان کی لعنت وملامت ھوئی۔ اس کیس کو مذھبی رنگ دینے کی کوشش سے اندرون ملک اور بیرون ملک جگ ھنسائی اور بدنامی ھوئی۔ بدقسمتی سے ان کا یہ غلط طرزعمل اب زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا ۔ اور زندگی بھر ان کو اس ناپسندیدہ عمل کی وجہ سے طعنے ملیں گے۔
علماء کرام کے اس طرزعمل اور خاص کر جی ٹی آئی کا فیصلہ آنے کے بعد عوام بہت سے سوالات اٹھا رہے ھیں ۔ بعض سوالات قارئین کی دلچسپی کیلے نیچے دیے جا رہے ھیں ۔ ھمارے مقدس مذھب کے مطابق ایک بیگناہ انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے تو کیا مردان کے علماء قوم کی راھنمائی فرمائینگے کہ پاکستان کے سب سے اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر ھدایت قائم جی ٹی آئی کا فیصلہ آنے اور مشال خان شھید کی توھین رسالت کے الزام سے بریت کے بعد وہ قوم سے اپنے کئے کی معافی مانگے ینگے یا انسانیت کے قاتلوں کے حامیوں کے صف میں کھڑا ھونا پسند کرئینگے؟
کیا ھمارے مذھب میں ایک بیگناہ مسلمان پر توھین رسالت کا الزام لگانا اور پھر اس بے بنیاد الزام کے تحت اس کو غیر انسانی طریقے سے قتل کرنا جاھیز ہے اگر نہیں تو جن افراد نے یہ مکروہ جرم کیا ہے ان کیلئے سزا کیا ہے؟ مشال خان پر لگایا گیا الزام غلط ثابت کرنے والے ناقابل تردید شواہد کے باوجود ایسی درندگی کرنے والوں کی حمایت کرنے والوں کیلئے کیا حکم ہے ؟
کیا پیغمبر اسلام سے محبت کا اظہار افواہوں پر سُنی سُنائی باتوں پر قتل و غارت ہے یا اسلام کا شیدائی ھونے کا مطلب صرف نفرت اور تشدد کو ابھارنا ہے یا مذھبی رواداری ، میانہ روی ، صبر اور برداشت کی تلقین اور مظاھرہ بھی ہے۔ شیطانی وسوسوں سے بچنا اور افواھوں پر کان نہ دھرنا بھی ہے ؟
کیا مذھب میں بغیر تصدیق کے افواھوں اور سنی سنائی باتوں پر قتل جیسا سنگین عمل کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں تو اس سلسلے میں تعلیمات کیا ہے ؟ سیرت پیغمبر اسلام کی روشنی میں یہ علماء کرام یہ بیان پسند کرئینگے کہ انہوں نے مشال خان کے کیس میں جو طرزعمل اختیار کیا وہ کیا رسول اکرم کے قول و فعل کےمطابق تھا یا منافی ؟ ذاتی یا گروہی مفادات کیلئے کئ گی قتل کی سازش کو مذھبی رنگ دینے کی کوشش سے مذھب کے بارے میں پیداشدہ غلط تاثر اور غلط فہمیوں کی صفائی کیسے ھوگی ؟
پھر مشال خان کی شھادت اور اس کے بیگناہی کے ٹھوس شواہد کے باوجود بعض مذھبی حلقوں کی جانب سے جس طریقے سے اس کیس کو مذھبی رنگ دینے کی کوشش سے اندرون ملک اور بیرون ملک جو جگ ھنسائی اور بدنامی ھوئی اس کا ازالہ کیسے ھوگا ؟ اعلی ترین ملکی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اب مندرجہ ذیل تعلیمات کی روشنی میں آپ لوگ اپنے طرزعمل کی کیا وضاحت کرنا پسند کرئینگے ؟
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے “۔ ( صحیح مسلم )۔ ایک اور روایت میں ہے: ’’ انسان کے گناہگار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے‘‘۔ جبکہ ایک اور حدیث ہے کہ ’’ جو شخص جان بوجھ کر کوئی مشکوک خبر بیان کرے، تو وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہے‘‘( صحیح مسلم )۔
اس طرح ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘ ۔ (متفق علیہ)
آخر میں کیا ھم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ھیں کہ یہ تعلیمات صرف بیان کرنے کیلئے ہے یا اس پر عمل کی بھی ضرورت ہے ؟