Home / Urdu Corner / قربانی کی کھالیں اور دھشت گردی

قربانی کی کھالیں اور دھشت گردی

qkk02

Photo: The Nation

قربانی کی کھالوں سے آمدن عسکریت پسند تنظیموں کی آمدن کا ایک اھم زریعہ ہے ۔ امسال بھی عید قربان کی امد پر مختلف عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کھالیں جمع کرنے کیلئے تشہیری مھم شروع کی گئی۔ قومی منصوبہ عمل میں دھشت گرد تنظیموں کو فنڈز روکنے کی بات کی گئی تھی مگر اس سلسلے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ھوئی۔ کراچی میں آپریشن اور کوئٹہ اور مردان وغیرہ کے دھشت گردی کے واقعات کے بعد ریاستی اداروں کو اس منصوبے کی یاد ستائی اور ساتھ میں دھشت گردوں کو فنڈنگ کا مسلہ بھی یاد آیا۔ اور اس فنڈنگ کو روکنے کیلئے نئی کوششیں شروع کی گئ ۔

ھر سال پاکستان میں لاکھوں مویشی سنت ابراہیمی کے بھینٹ چڑھ جاتے ہے ۔ پاکستان ٹینرز ایسو سی ایشن کے مطابق امسال 15 ارب روپے کی مالیت  کے مویشیوں کی قربانی متوقع ہے ۔ اور قربانی کی کھالوں سے تقریباً 3 سے 4 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے جبکہ پچھلے سال یہ آمدن  6 سے 7  ارب روپے تھی ۔ اس سال کھالوں  کی قیمت کافی کم ہے جس کی وجہ سے کھالوں سے ھونے والی مجموعی آمدنی بھی متاثر ھوگی۔  قربانی کے کھالوں کو بطور عطیہ یا صدقہ جمع کرنے کیلئے مختلف رفاعی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس ، مختلف مذھبی جماعتیں اور عسکریت پسند تنظمیں بھی سرگرم عمل ھو جاتی ھیں ۔ روایتی طور پر عسکریت پسندوں کیلئے بقر عید اور رمضان خاص کر زاکات اور فطرانہ چندے اور عطیات جمع کرنے کے اھم مواقع ھوتےھیں ۔  ماضی قریب تک ریاست نے ان مواقعوں پر عسکریت پسندوں کو چندے اور عطیات جمع کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ مگر سال گزشتہ سے قومی منصوبہ عمل کے تحت اور اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر کھالیں جمع کرنے پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے ۔ جبکہ امسال کھالیں جمع کرنے کے عمل کو بہتر انداز میں ضابطے کے تحت لانے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔  اس سلسلے میں سندھ اور پنجاب میں کھالیں جمع کرنے پر کچھ پابندیاں لگائی گئی ہے۔  جبکہ پختونخوا اور بلوچستان میں اتنی سختی دیکھنے میں نہیں آرہی۔

ماضی  میں کوئی روک ٹوک نہ ھونے کی وجہ سے بلکہ ریاست کی سرپرستی سے ان اربوں روپے کی آمدن کا اچھا خاصہ حصہ عسکریت پسند تنظیموں کو بھی مل جاتا تھا۔ اس مقصد کیلئے عید قربان سے پہلے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مھم چلائی جاتی ہے اور کھالیں جمع کرنے کیلئے وسیع نیٹ ورک بروئے کار لایا جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے کام کرنے والی تنظیموں نے اپنا ایک حلقہ اثر بنایا ھوا ہے اور ان کو باقاعدگی سے وہاں سے کھالیں ملتی ہے۔ بیرونی دباؤ پر بعض عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی لگا تو دی گئی مگر ان کو دوسرے ناموں سے کام کرنے دیا گیا۔ کچھ تنظیموں نے تو رفاعی ادارے بنا کر اپنے آپ کو کیمو فلاج کرنے کی کوشش کی۔ مگر ابھی تک ان کے عطیات جمع کرنے والے بینرز اور پوسٹرز پر جہاد کی عکاسی ھوتی ہے۔

پنجاب میں کھالیں جمع کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ سے این او سی لینا پڑتا ہے اور کھالیں جمع کرنے کیئے کیمپ لگانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ این او سی کیلئے درخواست کے ساتھ کالعدم تنظیموں سے لا تعلقی کا بیان حلفیہ بھی جمع کرانا پڑتا ہے۔ اس طرح آمدن اور خرچ  کا ریکارڈ بھی دینا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت نے این او سی کے اجرا میں سختی سے کام لیا ہے ۔ ابھی تک 108 مدارس اور 9 این جی اوز کو این او سی ملا ہے ۔  پنجاب حکومت نہ 63 کالعدم عسکریت پسند تنظیموں پر کھالیں جمع کرنے کی پابندی لگائی ہے اور ان کی فہرست متعلقہ ضلعی حکام کو بھیجی گئی ہے۔ جس سے کسی حد تک کھالوں سے عسکریت پسندوں کی آمدن پر کچھ اثر پڑا ہے۔ مگر پنجاب کے بعض علاقوں میں اچھے عسکریت پسندوں مثلا ان رفاعی تنظیموں جن پر کالعدم لشکر طیبہ سے تعلق کا شبہ کیا جاتا ہے کو کھالیں جمع کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پنجاب میں فلاح انسانیت فاونڈیشن سب سے زیادہ کھالیں جمع کرتی ھیں ۔ اس فاونڈیشن نے 2013 میں ایک لاکھ کھالیں جمع کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا۔

پنجاب کی نسبت سندھ میں کھالیں جمع کرنے کا معاملہ کسی حد تک مختلف ہے ۔ چونکہ سندھ خاص کر کراچی قربانی کی کھالیں بزور چھینے کیلئے مشہور ہے ۔ اسلئے امسال یہاں غیر قانونی طور پر کھالیں جمع کرنے کی عمل کی روک تھام کیلئے سخت انتظامات کیئے گئے تھے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی آمدن کا ایک اچھا خاصہ زریعہ عید الفطر کے موقع پر فطرانہ اور زکات اور عید قربان کے کھالوں سے آمدن اور عطیات ھوا کرتی  تھی ۔ ایم کیو ایم نے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا آغاز 1985 کے بعد سے کیا تھا۔ اور لیدر انڈسٹری کے زرائع کے مطابق وہ پچھلے کئی سالوں سے ھر سال تقریباً ایک لاکھ کے قریب کھالیں جمع کرتی تھی۔ اور یہ عمل گزشتہ دو سال سے آپریشن کی وجہ سے بری طرح متاثر ھوا ہے۔ پارٹی کو لندن سے باقاعدہ اس موقع پر چندے کا ٹارگٹ ملتا تھا لیکن اب پارٹی اس ٹارگٹ کو پورا کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ یہ عطیات بانی تحریک ، لندن سیکریٹریٹ  اور دیگر اوورسیز کاموں کا خرچہ پورا کرنے کا بڑا زریعہ تھا۔ اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے رسمی طور پر کھالیں جمع نہ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر بعض حلقوں کی جانب سے غیر روایتی طریقوں سے کھالیں جمع کرنے کی کوششیں کی گئ ہے۔ اسندھ میں ایم کیو ایم زیادہ کھالیں جمع کرتی رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ماضی میں عید قربان پر کراچی میں 60 سے 70 فیصدی کھالیں ایم کیو ایم اکٹھی کرتی تھی۔

کھالوں کی جبری چھینے کی وارداتوں کو روکنے کیلئے سندھ میں عید کے تینوں دن غیر اعلانیہ ایمرجنسی قائم کی گئی تھی۔ کھالیں جمع کرنے کیلئے اجازت نامہ لازمی قرار دیدیا گیا تھا۔ کھالیں جمع کرنے کیئے بینرز اور کیمپ لگانے پر پابندی جبکہ کھالیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیلئے بھی اجازت نامہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اور کھالیں جمع کرنے والے اداروں سے کھالوں سے حاصل آمدن اور خرچ کا حساب کتاب لیا جائیگا۔  غیر قانونی طور پر کھالیں جمع کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو چوری چھپے کھالیں دینے والے افراد کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت  کے جرم میں گرفتار اور مقدمات بنانے کے احکامات جاری کیے گئے ھیں۔  پچھلے سال سندھ میں 800 کے قریب مشکوک افراد کو کھالیں چھینے پر گرفتار کیا تھا۔

 خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں عسکریت پسند تنظیمیں باقاعدہ گاڑیوں پر لاوڈ اسپیکر لگے شہر میں کھلے عام قربانی کی کھالیں عطیہ یا صدقہ کے طور پر دینے کے اعلانات کر رہی تھی۔  مثلا ضلع دیر میں البدر مجاہدین ، جماعت دعوت اور حزب المجاھدین کھلم کھلا کھالیں اکٹھی کرنے کیئے بھرپور عوامی مھم چلا رہے ھیں ۔ ایک مقامی سماجی کارکن ابراش پاشا نے عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کھلم کھلا کھالیں جمع کرنے کی مھم کی تصدیق کی اور کہا کہ صرف ان کے ضلع دیر بالا سے عسکریت پسندوں کو اس مد میں پانچ سے آٹھ ملین روپے تک آمدن کا امکان ہے۔

دوسری طرف ذمہ دار شہریوں میں قربانی کی کھالوں سے حاصل آمدن کے دھشت گردی کیلئے استعمال کے حوالے سے تشویش اور تحفظات موجود ھیں جس کا وہ مختلف طریقوں سے اظہار کر رہے ھیں۔ بعض علاقوں میں شہریوں کی جانب سے قربانی کی کھالوں کا عطیہ سوچ سمجھ کر دینے کے پوسٹرز بھی لگائے گئے ھیں۔ اور سوشل میڈیا پر بھی باشعور شہری کھالوں کا عطیہ احتیاط سے دینے کے مشورے دے رہے ھیں اور یہ پوسٹ کہ ” کسی مذھبی جماعت یا مدرسے میں قربانی کی کھال دینے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لیں کہ کہیں یہ کھالیں آپکی بچوں کی کھالیں ادھیڑ نے کے کام نہ آجائے ”  سوشل میں بہت زیادہ مقبول ھوا ہے ۔  اس طرح بعض شہری عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کر رہے ھیں ۔ اور ان کے پوسٹرز وغیرہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال کر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ھیں ۔ سوشل میڈیا پر آجکل حزب المجاہدین ضلع دیر کے ایک پوسٹرز کا چرچہ ہے جو اس کی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تشہیری مھم کا حصہ ہے ۔ پوسٹرز پر کشمیر، فلسطین ، افغانستان ، عراق اور برما میں مسلمانوں پر ظلم کی کچھ تصویریں دی گی ھیں اور پھر کیا گیا ہے کہ حزب کے مجاہدین ھر میدان میں ان کے مقابلے کیلئے موجود ھیں اور ان کو عطیات اور خاص کر قربانی کی کھالیں دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ اور رابطے کیلئے تین ذمہ داران کے نمبر تک دئیے گئے ھیں ۔

مختلف سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے درمیان قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا مقابلہ سندھ میں اکثر اوقات متشدد اور باقی علاقوں میں نسبتا پرامن رہتا ہے۔ پچھلے سال کھالوں پر پابندی پر ایم کیو ایم کے ایک راھنما کا یہ تبصرہ اس ٹویٹ کی شکل میں کافی مشہور ھوا تھا کہ ” قربانی کی کھالیں ایم کیو ایم کو دینا سخت گناہ کا مؤجب ہے البتہ جماعت اسلامی کو دینے کا دُگنا اجر ہے۔ فتوی جامعہ رینجرویہ”. یہ ٹوئٹ اگر ایک طرف پابندی سے پیداشدہ صورتحال میں ان کی فرسٹریشن کا اظہار تھا تو دوسری طرف رینجرز پر چبھتی ھوئی تنقید بھی کہ پچھلے سال ان کو تو اجازت کے باوجود کھالیں جمع کرنے نہیں دیا گیا مگر ان کے سیاسی حریفوں کو کھلی آزادی دی گئی تھی۔  اس سے مختلف سیاسی اور مذھبی گروپوں میں قربانی کی کھالوں کیلئے آپس میں زوردار مسابقے کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

قربانی کی کھالوں سے ھونے والی آمدنی کو عسکریت پسندوں کے ھاتھوں میں جانے سے روکنے اور اس کی اندرون ملک اور بیرون ملک دھشت گردی کیلئے استعمال کو روکنے کےلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں یکساں پالیسی نافذ کی جائے اور پالیسی اور متعلقہ قوانین پر بلا استثنی عملدرامد کو یقینی بنایا جائے ۔ دھشت گردی کے فنڈنگ کے کثیر زرائع ھیں ان سب کی نشاندہی اور سدباب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اب دنیا گلوبل ویلیج ہے ۔ امریکہ میں ایک اھم قانون سازی زیر غور ہے جس کے تحت گیارہ ستمبر میں ہلاک ھونے والے افراد کی لواحقین سعودی عرب سے ھر جانے کا دعوی کرسکتے ھیں ۔ حالانکہ اس واقعے میں سعودی حکومت کا برائے راست کوئی رول نہیں جبکہ ملزمان میں اکثریت سعودی باشندوں کی تھی۔اگر یہ روایت قائم ھوگئی اور اس کا دائرہ دیگر ممالک تک پھیلایا گیا تو بات ھمارے دھلیز تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔ اس لئے بدلتی ھوئی دنیا کے تقاضوں اور شرائط کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ دھشت گردی چاہے جہاں ھو جس شکل میں بھی ھو اس کی حمایت کے بجائے اس کی مذمت ھونی چائیے ۔

ایمل خٹک

ایمل خٹک

سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ کار ایمل خٹک  اخبارات اور جرائد میں انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے رہتے ھیں ۔ ان کا رابطہ ایمیل یہ ہے

aimalk@yahoo.com

دی پشتون ٹائمز

About The Pashtun Times

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

x

Check Also

پشتون تحفظ تحریک: پس منظر و مختصر تعارف

تحریر: سنگین باچا 26 جنوری 2018ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ’محسود تحفظ ...