پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اراکین سے پاکستانی فوج کے سرابراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی حالیہ ملاقات اوربات چیت کئی حوالوں سے اھم ھے ۔ جو تفصیلات ذرائع ابلاغ کے زریعے سے ملی ہے اس بناء پر اس بات چیت کےچند اھم نکات یہ ھیں ۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے اور باتوں کے علاوہ فوج اور سیاستدانوں کے ڈائیلاگ پر زور دیتے ھوئے کہا ہے کہ وہ پرانی روایات توڑنا چاھتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف پارلیمان کیوں نہیں جاسکتا اور اراکین پارلیمان انکے پاس کیوں نہیں آسکتے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سول-ملٹری تعلقات میں کوئی تناو نہیں اور یہ کہ وہ ذاتی طور پر جمہوری اداروں کی مضبوطی اور استحکام کا حامی ہے ۔
عام حالات میں اور جمہوری ممالک میں فوجی سربراہ کے بیان پر تبصرے اوّل تو عموما کئے نہیں جاتے مگر اس پر رائے زنی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایک تو فوجی سربراہ پیشہ وارانہ امور پر بات کرتے ھیں اور باقی حکومتی اور ریاستی معاملات سے اس کا تعلق نہیں ھوتا اور نہ وہ کبھی اس پر تبصرہ کرتے ھیں ۔ لیکن پھر وہی بات کہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے ۔ یہاں فوجی سربراہ اپنے آپ کو صرف پیشہ وارانہ امور تک محدود رکھنے کا پابند نہیں ھوتا ۔ کیا اچھا ھوتا کہ دیگر جمہوری معاشروں یا ھمارے ھمسایہ ممالک کی طرح ھمارے فوجی افسر بھی اپنے آپ کو پیشہ وارانہ امور تک محدود رکھتے۔
دیگر مھذب ممالک کی طرح پاکستان کے آئین ، قانون اور رولز آف بزنس میں بھی مختلف آئینی اور ریاستی اداروں کے فرائض اور اختیارات کا کم وبیش تقریبا ویسا ہی تعین کیا گیا ہے ۔ ھر ریاستی ادارے کا دائرہ کار متعین ہے ۔ لیکن پاکستان کی تاریخ آئین ، قانون اور رولز آف بزنس سے روگردانی اور بعض اداروں کی اپنے آپ کو دیگر اداروں سے بالاتر اور قانون سے مبرا سمجھنے کی واقعات سے بھری پڑی ہے ۔
اس ملک میں بحریہ اور فضائیہ کے سربراھان بھی ھیں مگر بہت کم لوگوں کو ان کے نام معلوم ھے اور پیشہ وارانہ وقار اور ساکھ کے تقاضے پیش نظر رکھتے ھوئے بہت کم مواقع پر وہ پبلک ھوتے ھیں اور پیشہ وارانہ امور کے علاوہ دیگر قومی امور پر بہت کم بولتے ھیں ۔ مگر آرمی چیف کی بات اور ہے ۔ یکے بعد دیگرے سربراھان نے اس عھدے کو متنازعہ بنایا ۔ فوج کا محکمہ تعلقات عامہ اور بعض دیگر متعلقہ ادارے چیف کی عوامی امیج اور شخصیت سازی میں مصروف رہتے ھیں ۔ سابق آرمی چیف کے دور میں تو یہ عمل انتھا کو پہنچا اور وہ ایک پیشہ ور فوجی سے زیادہ ایک سیاستدان زیادہ نظر آئے ۔
یہی وجہ ہے کہ عوام نے کبھی بحریہ یا فضائیہ کے چیف کو موضوع سخن نہیں بنایا مگر بری فوج کے سربراہ ھمیشہ زیر بحث رہتے ھیں ۔ اور اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی بھی یونیفارم والا فرد اپنے آئینی دائرہ کار اور اختیار کے اندر رہ کر پیشہ وارانہ فرض استعمال کرئیگا تو کوئی مسلہ نہیں ھوگا ۔ مسلہ تب بن جاتا ہے جب آئینی مینڈیٹ سے تجاوز کیا جاتا ہے ۔ دیگر ریاستی اداروں کے آئینی اختیارات کا احترام نہیں کیا جاتا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول اپنایا یا رائج کیا جاتا ہے ۔
بظاھر تو آرمی چیف کی باتوں میں کھلا پن اور روایات توڑنے کا عندیا دیا جارہا ہے ۔ اور یہی دعا ہے کہ خدا ان کو غلط روایات توڑنے کی توفیق دے ۔ ملک میں بگاڑ کی ایک اھم وجہ فوج کی جانب سے سیاسی معاملات میں مداخلت کی غلط روایت بھی ہے ۔ سیاسی معاملات میں مسلسل کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ مداخلت کی وجہ سےفوج کی عمومی ذھینیت ایسی بن چکی ہے جس کے تحت سویلین اور بالخصوص سیاستدانوں کو کمتر، حقیر اور نا اھل سمجھا جاتا ہے ۔ کرپشن کا ناسور پاکستانی معاشرے کے رگ رگ میں پھیل چکا ہے اور کوئی بھی ج چاہے جرنلسٹ ھو یا جج یا جنرل اس برائی سے محفوظ نہیں۔ ریاست کے تمام اداروں میں کرپشن ، اقربا پروری اور بےقاعدگیاں بڑھ چکی ہے۔ اگر ملک کے کئی وزراء اعظم پر کرپشن کے الزامات ھیں تو کئی سابق فوجی سربراھان بھی اس الزام سے مبرا نہیں یہ اور بات ہے کہ ملک کیں احتساب کا عمل یکطرفہ اور سلیکٹیو ھوتا ہے۔ اور زیادہ تر سیاستدانوں کا احتساب ھوتا رہا ہے۔
بدقسمتی سے ملک کو سنگین سے سنگین تر بحرانوں کا سامنا زیادہ تر فوجی آمریتوں کے دور میں ھوا ہے۔ پہلے فوجی آمر کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادیں ڈالی گی اور دوسرے آمر کے دور میں یہ بنیادیں مزید گہری ھوئی اور اس کے نتیجہ میں ملک دولخت ھوا۔ جنرل ضیاء کے دور میں انتھا پسندی کی عفریت کو ابھرنے دیاگیا اور اس کے بطن سے قسماقسم کی عسکریت پسندی کے بچے پیدا ھوئے۔ جنرل مشرف کا دور بھی کئی حوالوں سے مشھور ہے ۔ عسکریت پسندی اتنی پھیلی کہ کوئی چھاؤنی ، ائیر بیس اور حتی کہ جی ایچ کیو اور انٹلی جنس اداروں کے دفاتر تک محفوظ نہیں رہے۔ کئی فوجی افسران سرکاری گاڑیوں کی بجائے پرائیوٹ اور یونیفارم پہنے اور فوجی ھیر کٹ رکھنے سے اجتناب کرتے تھے یا ان کو ایسا کرنے کی ھدایت تھی۔
دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک تو چھوڑئیے اگر پاکستان کے آئین اور قانون کی بات کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو کسی کو کسی کے پاس جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئیگی ۔ اور معاف کیجئے پھر نہ کسی پیشہ ور فوجی کو جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت پیش آئیگی ۔ کیونکہ جمہوری معاشروں میں یہ فوج کا کام نہیں۔ اگر ھر ادارہ اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ کے مطابق چلے تو سول- ملٹری تناو کی نوبت ہی نہیں آئیگی کیونکہ سول-ملٹری تعلقات میں سنگین کشیدگی اور تناو کی وجوھات ختم ھوجائیگی ۔ یہاں تو معاملات سارے الٹے ھیں ۔
اسی ملاقات کو لے لیتے کسی بھی جمہوری ملک میں پڑوسی ممالک سے تعلقات پر بریفنگ فوج کا نہیں وزارت خارجہ کا کام ھوتا ہے ۔ ڈائرکٹرجنرل ملٹری آپریشنز عموما فوجی اور پیشہ وارانہ نوعیت کے معاملات پر بریفنگ دیتے ھیں اور خارجہ تعلقات پر بریفنگ کا فریضہ وزارت خارجہ کے افسران کا ھوتا ہے ۔ اگر ملک کی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ کی بجائے کوئی اور ادارہ چلانے لگے تو ایسے میں اگر وزیر خارجہ ھوتے بھی تو کیا کرتے ۔ ملک کی سفارتی تنہائی اور ناکامی کی ذمہ دار وزارت خارجہ نہیں بلکہ وہ ادارے ھیں جو ملک کی اھم داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بناتے ھیں۔
آرمی چیف کے ان خیالات اور خلوص نیت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں مگر ادارے کے سربراہ اور ادارے کے دیگر بازوؤں اور ماتحت اداروں کی سوچ اور عمل میں کافی تضاد پایا جاتا ہے ۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور سے ادارے کے اندر یہ تضاد زیادہ واضع نظر آنا شروع ھوگیا تھا۔ اس وقت لبرل اور مذھبی لابیوں کی بات ھو رہے تھی ۔ تاریخی دھرنوں کے موقع پر ادارے کی جانب سے مکس سگنل مل رئے تھے۔ موجودہ دور میں آئی ایس پی آر کا ایک متنازعہ پریس ریلز آیا ۔ مسلم لیگی راھنما انتخابات میں بعض اداروں کی مداخلت اور اپنے بندوں کے اٹھائے جانے کا دعوی کر رئے ھیں اور آرمی چیف کلثوم نواز کی الیکشن میں کامیابی کی مبارکباد دے رئے ھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سربراھان کا جمہوری حکومتوں سے بہتر تعلقات کی کوشش یا سیاسی معاملات عدم مداخلت کی پالیسی ادارے میں نہ تو پسند کی جاتی اور نہ برداشت۔
اس طرح فوج سے قربت رکھنے والے یا فوج کے ماتحت کچھ ویب گروپس اور دیگر سوشل میڈیا پر سیاسی قائدین کی کردار کشی ، ان کی حب الوطنی پر شک اور ملک سے غداری کے فتوے عام سی بات ہے ۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت اور حتی کہ مسلم لیگ کے قائدین اور میاں نواز شریف کے خاندان کے دیگر افراد کی کردار کشی فیشن بن گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر فوجی وردی میں ملبوس افسران کے ویڈیو موجود ھیں جس میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض باخبر لوگ تو یہ تک کہتے ھیں کہ ادارے کے سربراہ کی علم میں لائے بغیر بہت سے کام ھوتے ھیں اور ماتحت ادارے اپنا کام کرتے رہتےھیں ۔
بدقسمتی سے اداروں میں ایک مخصوص قسم کی ذھنیت پروان چڑھی ہے جس کے مطابق اگر کوئی اور ریاستی ادارہ یا سرکاری اور حکومتی شخصیت ان کی طرح نہیں سوچتی اور یا ان کے بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے تو اس کی حب آلوطنی مشکوک اور سیکوریٹی رسک بن جاتا ہے ۔ اس مخصوص ذھینیت کا نشانہ پہلے پہل صرف حزب اختلاف جو زیادہ تر جمہوری ، روشن خیال اور قوم پرست جماعتیں ھوا کرتی تھی پھر آھستہ آھستہ اس کٹیگری میں مرکز گریز قوتوں کے ساتھ ساتھ مرکز پسند قوتیں بھی یعنی حکمران جماعتیں بھی شامل ھونے لگی اب تو معاملہ بہت آگے جاچکا ہے ۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے ریاستی ادارے کئی وزراء اعظم کو سیکورٹی رسک قرار دی چکی ہے اور ریاستی وسائل منتخب حکومتوں کی کردار کشی اور ان کی حکومتیں گرانے میں صرف کی جاتی ہے ۔
اس مخصوص ذھینیت کا اظہار قانون سے اپنے آپ کو مبرا اور بالا تر سمجھنے میں بھی نکلتا ہے ۔ اس طرح قانون کا احترام سب پر فرض اور کسی کو قانون کے پرخچے اڑانے کی اجازت نہیں ۔ جرم جرم ھوتا ہے چاہے ایک عام شہری کرے یا ایک یونیفارم والا ۔ نہ تو قانون نہ مذھب نے کسی فرد کو جرم سے مستثنی یا مبرا قرار دیا ہے ۔ قانون شکنی جو بھی کرے اس کو سزا ملنی چائیے۔ یہ حقیقت اب تسلیم کرنا ھوگی کہ اب مقدس گائے والا تصور نہیں رہا۔ اب کوئی ادارہ یا شخصیت تنقید سے مبرا نہیں ۔ اور نہ اب اظہار رائے یا معلومات کے زرائع پر کسی ادارے کا کنٹرول ممکن رہا ۔
بعض ریاستی اداروں کے زیر کنٹرول سوشل میڈیا یا جن پر ان اداروں سے تعلق کا شک کیا جاتا ہے اور یا وہ خود ایسے نام استعمال کرتے ھیں اور ان اداروں سے تعلق ظاھر کرتے ھیں وہ کھلم کھلا موجودہ حکومت کے اھم شخصیات پر غداری اور ان کی حب آلوطنی کو داغدار بنانے پر تلے ھوئے ھیں ۔ حتی کہ آجکل ایک یونیفارم پہنے شخصیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ ایک اھم حکومتی شخصیت پر بہتان تراشی میں مصروف ھیں ۔
ریاستی اداروں کی میڈیا اینگجمنٹ یا منجمنٹ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔ بدقسمتی سے میڈیا میں بھی بٹ مین کلچر سرایت کرگیا ہے اور یہ کلچر نئی شکل میں رائج ھوچکا ہے۔ نیو بٹ مین برش سے تو نہیں قلم اور کیمرے سے بوٹ پالش کرنے میں مصروف ھیں ۔ میڈیا میں نیو بٹ مینوں کے عروج کے پیچھے سالوں کی محنت اور مالی فوائد اور مراعات کا پورا سسٹم کارفرما ہے ۔ نیو بٹ مین ریاستی بیانیوں کو جواز فراھم کرنے کے ساتھ ساتھ سول قیادت کی کردار کشی اور عسکری قیادت کی شخصیت سازی میں مصروف ھیں ۔ ایک کو ولن اور دوسرے کو ھیرو یا مسیحا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا انگجمنٹ ھونا چائیے وہ بھی پیشہ ورانہ امور کیلئے نہ کہ ماورا آئینی کردار کیلئے میڈیا مینی پولیشن۔
آئین اور قانون کی بالادستی کو قائم ، بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ احتساب اور قانون کے سامنے سب کی برابری کے آصول کو عملا نافذ کرنا ھوگا تب بات آگے بڑھی گی ورنہ حالات تیزی سےبد سے بد تر ھوتے جارئے ھیں ۔ اوراس کی ذمہ داری سب پر عائد ھوتی ہے ۔ اس طرح انتھاپسندی کے خاتمے کیلئے ریاست کو واضع پالیسی اعلان کرنا ھوگا اور عسکریت پسند ریاستی پالیسیوں کو خیر آباد کہنا ھوگا۔ اچھے اور بُرے عسکریت پسند کی تمیز ختم کرنا ھوگی ۔ دھشت گردی کرنے والے چاہے ملک کے اندر کاروائی کریں یا پڑوس میں وہ دھشت گرد ھیں ۔