1857 میں جب انگریزوں نے ہندوستان کے سر زمین پر قدم رکھا تو آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ پورے ہندوستان پر قابض ہوگیئے. ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد جب انہوں نے افغانستان کو بھی اپنی حکومت کے زہر عتاب لانے کی کوشش کی تو تب انھیں افغان باشندوں کی طرف سے ایک بہت ہی سخت مقابلے کا سامناں کرنا پڑا۔ یہ جنگیں ایک بہت بڑے وقت تک چلتی رہی، اور وقت کے ساتھ یہ جنگیں ان پر باری ہوتی گیی۔ تب انہوں نے جنگ کو رد کرکے ذہنی چالوں کا راستہ اپنایا، جس کا انھیں بہت فائدہ پہنچا۔ ڈیورنڈ لائن کی صورت میں، افغان قبائل کے اس کے بعد بھی ختم نہ کرنے پر برطانیہ بہت پریشان رہا اور پر برطانیہ نے فاٹا اور کوئٹہ کو اپنے دفاہی شہر میں تبدیل کردیا تاکہ وہ وہاں سے افغانستان پر حملے اور ان پر نظر رکھ سکے.
فاٹا میں برطانیہ نے محض چند مقامی قبائلی سرداروں کو اپنے نمائندے کے طور پر یہاں کے عوام پر مسلط کیے. تاکہ وہ افغانستان تک اپنی افواج کی محفوظ رسایی یقینی بنا سکے، اور افغانستان کے راستے برطانیہ کی ہندوستان نو آبادیات تک کسی قسم کی فوجی کاروایی کا امکان کم کر سکے. پاکستان بننے کے بعد بھی اس علاقے کو آزادی نصیب نہ ہوئی اور اس علاقے کو افغان جہاد کے لیے جہادیوں کے آڈھے کے تحت استعمال کیا گیا.
فاٹا سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل ہے. جن کو وفاقی حکومت پاکستان چلاتی ہے ایف سی آر کے قانون کے تحت جسے کالا قانون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.
اس قانون سے چھٹکارا پانے کے لیے فاٹا کے باشندوں نے ہمیشہ آواز اٹھایی پر انھیں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا.
پھر 1976 میں فاٹا میں نظم و نسق میں اصلاحات کے لیےپہلی باقاعدہ کمیٹی بناہی گہی. جی ذولفقار علی بھٹو نے جنرل نصراللہ کی سربراہی میں تشکیل دی. اس کمیٹی میں حفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے. اس کمیٹی کا مقصد 1977 کے انتخابات کے لیے وفاق کے زہر انتظام قبائلی علاقوں کو صوبہ پختونخوا کا حصہ بنانے کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا. اس حوالے سے مثبت پیش رفت کی امید تھی.
لیکن ضیاء مارشل لاء نے فاٹا کو اس بحران سے دو چار کردیا. جس سے یہاں کے عوام آج تک نکل نہ سکے ضیاء دور میں افغانستان میں مداخلات کے لیے فاٹا کو دنیا بھر کے جنگجوں کا مرکز بنادیا گیا.
فاٹا کی دوسری اصلاحاتی کمیٹی کی تشکیل 2006 میں مشرف کے دور میں امتیاز صاحبزادہ کے سربراہی میں ہویی تھی، اس کمیٹی کی بھی حتمی سفارشات یہی تھے، کہ اسے پختونخوا میں ضم کردیا جایے، اور بد قسمتی سے اس انضمام کو افغانستان میں امن کی غیر منطقہ اور غیر منصفانہ شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا.
اب تیسری بار وہی کوشش کی جارہی ہے تاکہ فاٹا کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکے، اور اپنے آواز کو وفاق تک پہنچا سکے.
اسی سلسلے میں وزیر عظم نے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی، جو فاٹا جاکر فاٹا کے عوام کی راہے جان سکے اور ایک سہی فیصلہ سامنے لاسکے اس کمیٹی میں تین تجاویز تھی.
1) فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جاہے.
2) فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کیا جاہے.
3) ایف سی آر(کالا قانون) میں ترمیم کی جاہیں.
فاٹا کے عوام کو اس کمیٹی سے تحفظ تھا کہ اس کمیٹی میں ایک بھی فاٹا کا ممبر نہیں چنا گیا اس پر ملک کی پشتون قوم پرست اور مذہبی پارٹیوں نے بھی تحفظات کا خدشہ ظاہر کیا
سوائے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمیعت علم اسلام (ف) جو کے حکومتی پارٹیاں ہے.
اس کمیٹی کی تیسری شک ایف سی آر (کالا قانون) میں ترمیم کا انتخاب دینے پر صاحب الرائے عمائدین کی جانب سے اعتراض کیا گیا. کہ اس قانون کے تحت مقامی باشندوں کو اب تک ان کے جایز قانونی اور آینی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، اور کمیٹی کے ممبران کو یہ بھی نہیں پتہ کے ایف سی آر (کالا قانون) ملکی آیین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہیں.
کمیٹی کی پہلی تجویز الگ صوبہ کے قیام پر بھی تحفظات موجود ہیں. فاٹا کو الگ صوبہ بنانا بھی ایک غیر سنجیدہ فیصلہ ہیں کیونکہ اگر اسے الگ صوبہ بنادیا جاہے تو اس اس کے دارلحکومت کے لیے موزوں ایجنسی کا انتخاب بیحد مشکل ہوگا.
کیا وزیرستان کے نمائندے باجوڑ ایجنسی جاسکتا ہے اگر صوبائی دفاتر باجوڑ میں ہو؟ یا خیبر اور کرم ایجنسی کے باشندے وزیرستان جا سکتے ہیں اگر وزیرستان کو دارلحکومت بنایا جاہے؟
دوسرا مسلہ وسائل اور تعلیم اور صحت کا ہے. فاٹا میں اس وقت نہ تو کوئی یونیورسٹی ہے اور نہ کوئی ہسپتال ایک کروڑ عوام کی سر زمین فاٹا کا سارا تعلیم اور صحت کی سہولیات کا 90 فیصد کا دارومدار پختونخوا صوبے پر ہے.
ان کے لیے بلکل نیا تعلیمی نظام اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا نظام کھڑا کرنا کس طرح ممکن ہیں. کیا فاٹا کو اس قدر فنڈ اور وسائل دیئے جاہیں گے کہ وہ الگ صوبہ بننے کے فوری بعد دفاتر، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی تعمیر اور انتظام کا بھوجھ اٹھا سکے؟
اور کیا اس صوبے کو وہ سارے حقوق ملنا ممکن ہیں جس کے لیے آج بھی بلوچستان، پختونخوا اور سندھ لڑ رہے ہیں.
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی تحفظات ہیں، اگر فاٹا پختونخوا میں ضم ہوا تو فاٹا کے باشندوں کا حق مارا جاہیں گا، میرا ایک سوال ہے اپ لوگوں کو فاٹا ساٹھ سال میں کبھی یاد کیوں نہیں آیا؟ تب کیوں یاد نہیں آیا جب فاٹا میں طالبان کی حکومت تھی؟ اور جب وہاں گوریلاں جنگیں لڑھی جارہی تھی اور اپ اپنے دور حکومت کے ان چار سال میں کتنی دفعہ دورہ کر چکے ہے؟ کتنی بار ان کا دکھ سننے کو بھٹے ہیں؟
جہاں تک رہی دیورنڈ لائن کا مسلہ کہ فاٹا کے ضم ہونے سے دیورنڈ لائن کو خطرہ لائق ہوجائیں گا تو چار سال سے پنجابی سامرجیوں کے ساتھ اپ کس بنا پر بھٹے ہیں اور تب اپ کو ڈیورنڈ لائن یاد کیوں نہ آیئ؟
ڈیورنڈ لائن کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی پشتون اپنی اصل آباوں آجداد سے دور ہوسکتے ہیں. اگر ایسا ہونا ہوتا تو بلوچستان کا صوبہ بن جانے پر ہوجاتا پختونخوا صوبہ بن جانے پر ہو جاتا.
فاٹا کے پشتون اقوام پر جو 60 سال سے ظلم ہورہا ہیں اس کے ختم کرنے کا واحد حل پختونخوا کے ساتھ انضمام میں ہیں.
حیرت کی بات ہے بولان سے چترال تک پختونخوا کا موقف رکھنے والے آج فاٹا کے الگ صوبے کے حق میں نارے مار راہیں ہیں اور ان سب کو غدّار کے نام سے نواز راہیں ہے جو آج ایک زمین ایک پشتون کی کوششوں میں کوشاں ہے.
پشتون وہ واحد قوم ہے جو تین حصوں میں تقسیم ہیں انھیں دشمن کے ناپاک سازش کے تحت اور تقسیم نہ کرے.
تحریر: ارباب تیمور خان