وفاقی حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے نئی سوالات سر اٹھا رئے ھیں اور اس کے فوائد اور نقصانات پر بحث شروع ہے۔ اس قسم کے دور رس سیاسی فیصلوں پر بحث و مباحثہ اور سیاسی حلقوں میں اختلاف نظر ایک قدرتی امر ہے۔ تمام تر کمی بیشی کے ساتھ موجودہ اصلاحات ایک اھم تاریخی پیش رفت ہے اور اصلاحات کے حوالے سے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں میں لے دے جاری رئیگی ۔ مختلف جماعتوں کی آپس کی اختلافات اور رقابتیں ایک طرف مگر فاٹا میں اس اصلاحات کے عمل کو کسی فرد یا ریاستی ادارے سے منسوب کرنا یا ان کو کریڈٹ دینا میرے خیال میں انتہائی زیادتی کی بات ھوگی ۔
اصلاحات کو سیاسی ایجنڈے کا اھم نکتہ بنانے میں پشتون قوم پرست اور دیگر جمہوری جماعتوں اور بعض غیر سرکاری اداروں کا بڑا ھاتھ ہے ۔ اصلاحات کا ایشیو اٹھانے اور اجاگر کرنے میں ان سیاسی جماعتوں اور اداروں کی برسوں کی محنت اور لگن شامل ہے۔ تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر جب کسی سیاسی ایشیو کو حل کئے بغیر بات آگے نہیں بڑ ھتی اور حکمرانوں کو اسے نظرانداز کرنا مشکل ھوجاتا ہے تو فیصلہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ھوتا کہ اس فیصلے کیلئے میدان یا سازگار حالات راتوں رات بنے بلکہ سیاسی فیصلوں کے پیچھے جہدوجہد کی لمبی تاریخ ھوتی ہے ۔ اور اس فیصلے کے پیچھے جہدوجہد کی بھی طویل تاریخ ہے ۔
قبائلی علاقو ں میں اصلاحات کا ایشیو ایک دیرینہ مطالبہ تھا اور ماضی میں وقتا فوقتا یہ ایشیو سر اٹھاتا رہا ہے۔ جب بھی اس ایشیو نے سر اٹھایا ہے تو حکومت نے عموما دو کام کئے ھیں ایک اصلاحاتی کمیشن کا قیام اور دوسرا اکثر حکومت قبائلی عوام کو کچھ نہ کچھ اختیار دینے پر مجبور ھوئی ہے چاہے وہ بےضرر اختیار یا اختیار کے نام پر لولی پاپ کیوں نہ ھو۔ فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ 1996 میں قبائلی عوام کو میں بالغ رائے دہی کے بنیاد پر انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ تھا۔ جس کے تحت پہلی بار قبائلی عوام بشمول خواتین نے 1997 کے عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس طرح ماضی میں فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کئی کمیشن یا کمیٹیاں بنی اور رپورٹیں بنائی گی۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں جب قومی تعمیر نو بیورو بنی اور پورے ملک کیلئے اختیارات کی منتقلی کا پروگرام پیش کیا گیا اور سال دو ھزار اور دو ھزار ایک میں مقامی حکومت کے انتخابات ھوئے تو اس وقت فاٹا میں بھی مقامی حکومت کو متعارف کرانے کیلئے عوامی دباؤ بڑا ۔ اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون بھی تیار کیا گیا مگر اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت اس کو پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ مگر مقامی حکومت کے نظام کی بجائے فاٹا میں پولیٹیکل انتظامیہ کے زیر کنٹرول مشاورتی کونسلوں کا نظام متعارف کرایا گیا جس میں انتخابات کی بجاہے نامزدگی کی گی ۔
قبائلی علاقوں میں شورش کی وجہ سے اس ایشیو کی اہمیت کافی بڑھی اور فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی دباؤ بھی بڑا۔ ابتدا میں ایسٹبلشمنٹ نے اصلاحات کی مزاحمت کی کوشش کی اور روایتی ٹال مٹول سے کام لیا مگر فاٹا میں جاری سوشیو-اکنامک حالات نے اسٹبلشمنٹ کو اصلاحات کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا۔ اس سلسلے میں قبائلی عوام کے اندر سیاسی بیداری اور اصلاحات کے مطالبے پر پیدا ھونے والی سیاسی اتفاق رائے نے اھم کردار ادا کیا۔ اصلاحات کے فیصلے کی کریڈٹ کسی ادارے یا فرد کو دینا قبائلی عوام کی انتھک جدوجہد اور بڑھتی ھوئی سیاسی بیداری کی توھین ہے ۔
ملک کی دس بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی برائے فاٹا اصلاحات کا 2010 میں قیام ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کمیٹی جس میں پاکستان مسلم لیگ ( نواز) پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، قومی وطن پارٹی، جمعیت علماء۔اسلام ( ف) ، متحدہ قومی موومنٹ ، مسلم لیگ ( ق) اور نیشنل پارٹی شامل تھی نے اکتوبر 2013 میں گیارہ نکاتی اصلاحات ایجنڈہ پیش کیا۔ اصلاحات کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کے سلسلے میں ایک اور بڑی کامیابی دسمبر 2014 میں منظور شدہ بیس نکاتی قومی منصوبہ عمل بھی تھا جس کا بارھواں نکتہ فاٹا میں اصلاحات کے بارے میں تھا۔
اس طرح اس کمیٹی کے بعد قبائلی سیاسی راھنماوں پر مشتمل آل فاٹا پولیٹیکل الائینس بھی بنی۔ فاٹا پولیٹیکل الائنس نے اپنے مطالبات کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کو ھمنوا بنانے کیلئے سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے دورے بھی کئے اور مختلف سیاسی راھنماوں سے رابطے کیئے آل فاٹا پولیٹیکل الائنس نے تقریباً تمام قبائلی علاقوں اور بندوبستی علاقوں میں اپنے مطالبات کے حق میں پرامن ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا ۔ الائینس نے سولہ نومبر 2015 کو ڈی چوک اسلام آباد میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاھرہ کیا ۔
و ایلی علاقوں میں سیاسی بیداری کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے نو ستمبر 2015 کو فاٹا میں اصلاحات کیلئے بائیسویں آئینی ترمیم پیش کی ۔ اس آئینی ترمیم میں جس کو اکثریتی فاٹا اراکین قومی اسمبلی حمایت حاصل تھی قبائلی علاقوں کی ضم ھونے کی بات کی گئ تھی۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر وفاقی حکومت نے نومبر 2015 کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دی اور اس کو اصلاحات تجویز کرنے کی ذمہ داری دی ۔
اس طرح چوبیس اگست 2016 کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے حکومت کی مقرر کردہ ریفارمز کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کی جس میں کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کے پانچ نکات کو مان لیا گیا۔ جس میں قبائلی علاقوں کی صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ھونے کا نکتہ بھی شامل تھا۔
ایک طرف تو اصلاحات کی ضرورت اور اہمیت پر سیاسی اتفاق رائے موجود تھی مگر دوسری طرف فاٹا کی حیثت کہ اس کو الگ صوبہ بنایا جائے یا اس کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے پر اختلافات موجود تھے ۔ مگر اکثریتی سیاسی جماعتیں اور قبائلی اراکین پارلیمنٹ ضم ھونے کے حق میں تھے۔ کمیٹی کی رپورٹ اور حکومت کی جانب سے رپورٹ کی روشنی میں اصلاحات کرنے کا عندیا سامنے آنے کے بعد فاٹا کی حیثت کے بارے میں یعنی فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا اس کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ۔