ریاستی بیانیے عموما” ریاست کے اندر بالا دست طبقات یا مفادی حلقوں کی مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔ پاکستان جیسے سیکورٹی اسٹیٹ میں عوامی اور ریاستی بیانیوں میں وزن کا پلڑا آخر الذکر کے حق میں رہتا ہے۔ مگر فلاحی ریاستوں میں ریاستی بیانیےعوامی آرزوں اور جذبات کی ترجمانی بھی کرتے ہے ۔ اور فلاحی ریاست عوامی اور ریاستی بیانیوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پسماندہ معاشروں میں بیانیوں پر طاقتور حکمران طبقات کا کنٹرول ھوتا ہے اور عوام کی رائے، مسائل ، مشکلات اور مطالبات کو دبایا جاتا ہے۔ فاٹا کا بہت عرصے تک اور بلوچستان کا ابھی تک میڈیا بلیک اوٹ ہے اور عوامی مسائل اور شکایات کو مین سٹریم میڈیا میں کوریج سے روکا جاتا ہے۔ اور شورش زدہ علاقوں میں اھم واقعات کی خبریں اور رپورٹنگ کنٹرول کی جاتی ہے اور صرف ریاستی اداروں کے نکتہ نظر کو سامنے لایا جاتا ہے۔ میڈیا کو صرف سرکاری ھینڈاوٹس اور پریس ریلیز شائع کرنے کا اختیار ھوتا ہے۔ جبکہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں نہ صرف یہ کہ عوامی بیانیے بھر پور طریقے سے سامنے لائے جاتے ھیں اور ریاستی بیانیوں پر اثرانداز ھوتے ھیں بلکہ اس کو چیلنج بھی کرتے ھیں۔
پاکستان میں ریاستی بیانیوں کو تقدس کا لبادہ پہنانے کی کوششیں بھی عام ھیں۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ بیانیے آسمانی احکامات کی شکل اختیار کر لیتے ھیں اور اس کی مخالفت یا اختلاف نظر کو بری طرح کچلا جاتا ہے اور برا سمجھا جاتا ہے۔
اختلاف نظر کے بارے میں مثبت رویہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کو پسماندہ اور زوال پزیر معاشرے سے ممتاز کرتی ہے ۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء کیلئے اختلاف نظر بہت ضروری ھوتا ہے ۔ اسلئے مہذب معاشروں میں اختلاف نظر کا احترام اور لحاظ کیا جاتا ہے۔ مگر پسماندہ اور زوال پزیر معاشروں میں اختلاف نظر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور دوسروں کی رائے کا آحترام تو دور کی بات اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ اختلاف نظر رکھنے والے فرد کو دشمن سمجھا جاتا ہے۔
عوامی بیانیے ضروری نہیں کہ ریاستی بیانیوں کی توثیق کرتے ھو بلکہ مفاد عامہ میں اس کی افادیت اور جواز کو چیلنج بھی کرسکتے ھیں اس کو مسترد بھی کرسکتے ھیں۔
پاکستان جیسے معاشروں میں بعض طاقتور ریاستی اداروں کی دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مداخلت اور پالیسیوں پر کنٹرول کرنے کی خواھش اور کوشش کی وجہ سے ریاست صرف ان بیانیوں کو فروغ دیتی ہے جو ان کی شخصی یا ادارہ جاتی مفاد کا تحفظ کرتی ھو اس کو تقویت بخشتی ھو۔ ریاستی مفادات اور اور عوامی بیانیے بعض اوقات ایک دوسرے کی متضاد بلکہ متصادم ھوتی ہے۔ سول اورملٹری تعلقات میں عدم توازن کی وجہ سے بعض اوقات ریاستی بیانیے بھی باھم متصادم یا متضاد ھوتے ھیں ۔ مثلا سابق آرمی چیف کی دوران ملازمت فوج اور سول شخصیات میں بڑے بڑے قومی منصوبوں یا اقدامات کی کریڈٹ لینے کے چکر میں ریاست کی جانب سے کئی بار مختلف اور بعض اوقات متضاد قسم کے بیانیے سامنے آتے رہے۔
باشعور اور صاحب الراۓ شہری اور سول سوسائٹی کے ادارے اپنے خواہشات ، رائے یا مطالبات کا اظہار عوامی بیانیوں کی شکل میں کرتے ھیں ۔ ان معاشروں میں جہاں بعض ریاستی ادارے اپنے آپ کو آئین سے ماوراء سمجھتے ھیں یا اپنے آئینی مینڈیٹ سے بالا تر کوئی کردار ادا کرتے ھیں وہاں عوامی بیانیوں کو دبایا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ اور دوسری طرف ریاستی بیانیوں کو فروغ دینے والے اداروں ، دانشوروں اور لکھاریوں کے جتھے موجود ھوتے ھیں جس کو مختلف ریاستی ادارے ریاستی بیانیوں کے فروغ اور دفاع کیلئے بروئے کار لاتے ھیں۔ لیکن جس طرح ھر شعبہ زوال کا شکار ہے اس طرح ریاست کے پروردہ اداروں اور دانشوروں میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہے ۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے گالی گلوچ ، کردار کشی اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار کے الزامات اور غداری کے تمغے بانٹنے اور کفر کے فتوی لگانے کا عمل ذھنی بانجھ پن کی علامت ھے ۔ اور یہی ھو رہا ہے۔
جو بھی آزاد اور سوچ اور فکر کا حامل شہری ہے وہ غدار ہے ۔ عوامی بیانیے بنانے اور فروغ دینے کا ھر عمل ملک دشمنی اور بیرونی سازش ہے۔ ملک کی شہریت اور حب آلوطنی پر اجارہ داری اور اسے اپنا جاگیر سمجھنے کی ذھنیت کا یہی حال ہے کہ ھر روز کسی نہ کسی دانشور یا لکھاری کو بیرونی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
اگر اپ کا تعلق بالادست حکمرانوں کی نسل ، عقیدہ یا مذھب سے نہیں یا آپ ریاستی بیانیوں کو فروغ دینے والے نہیں تو پھر آپ لاکھ ملک و قوم کی نیک نامی کو چار چاند لگائیں اور عالمی شہرت کا باعث بنے آپ کی شخصیات کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے لیکر ملالہ یوسفزئی تک ھم نے دیکھا کہ پاکستان کی نیک نامی اور عالمی شہرت کا باعث بنے والے شخصیات کی کیسی تذلیل کی جاتی ہے اور ان کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ ریاستی بیانیوں کو ترویج دینے والے اور ان کو عملی جامہ پہنانے والے جو ملک کا بیرون ملک امیج خراب کرتے ھیں ملک میں تنگ نظری،نفرت ، تشدد اور جنگی جنون کو ھوا دیتے ھیں وہ محب وطن قرار پاتے ھیں ۔ دینا بھر میں دھشت گردی کی پہچان رکھنے والے ھمارے ھیرو ھوتے ھیں ۔ چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا مگر یہ رویے نقصان دہ اور ضرر رساں ھیں۔
اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ اگر پاکستان میں عوامی بیانیوں کو فروغ دینے والے عوامی دانشوروں یا لکھاریوں کو ریاستی غضب اور قہر کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔ بار بار اس کی حب آلوطنی پر سوالات اٹھائے جاتے ھیں اور اگر اس کا تعلق کسی مذھبی اقلیت سے ھو تو کفر کا فتوی تو پکا ہے۔
پہلے افغان جہاد اور بعد میں طالبان کے دور میں پاکستانی ریاست نے اپنی پالیسیوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے اور ان کو دوام دینے کیلئے انتہا پسندی، تنگ نظری ، نفرت اور تشدد کو فروغ دینے والے بیانیے رائج کئے۔ جو کہ منفی اور تخریبی بیانیے تھے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں پہلے مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر نفرت اور مذھبی تعصب بڑا اور پھر اس کو مختلف مسلکوں اور فرقوں تک پھیلایا گیا ۔ یوں سارا معاشرہ منقسم اور انتشار کا شکار ھوگیا۔ مذھبی انتہاپسندی ، نفرت اور تعصب کے نتیجے میں تشدد میں بھی اضافہ ھوا۔
اور وجوھات کے علاوہ سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کی کامیابی کیلئے بھی سرحد کے دونوں طرف موجود پشتونوں کی روشن خیال ، جمہوری اور قوم پرست عناصر کو کمزور کرنا ضروری تھا اور اس مقصد کیلئے طالبان کو استعمال کیا گیا۔ پشتون دانشوروں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ جاری شورش پشتون معاشرے کے اندرونی محرکات یا وجوھات کی وجہ سے نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی قوتوں نے اپنے تنگ نظر مفادات کیلئے اس پر اوپر سے منظم انداز میں تھوپا ہے ۔
ریاستی بیانیے نہ صرف بیرونی دشمن کو زچ دینے اور مات دینے کیلئے بلکہ داخلی دشمنوں سے حساب بیباک کرنے کیلئے بھی تشکیل دیے گئے تھے۔ ان بیانیوں کے فروغ سے دشمن کو ھم کتنا نقصان پہنچا چکے ھیں ھیں یہ تو وقت ثابت کرئیگا مگر اس کے نتیجے میں اندرون ملک جتنی بربادی اور نقصان ھو چکا ہے اس کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اس موازنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ھماری پالیسیوں سے دشمن کا زیادہ نقصان ھوا یا ھمارا۔
عسکریت پسندی سے متعلق ریاستی اور عوامی بیانیوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ریاستی بیانیہ اس کو شروع سے دشمن کے طور پر پیش کرتی ہے۔ جبکہ پشتون شورش زدہ علاقوں میں عسکریت پسندی کے حوالے سے یہ بیانیہ اھم تھا کہ عسکریت پسند اور فوج سکے کے دو رخ ھیں۔ بار بار عوامی شکایات اور نوٹس میں لائے جانے کے باوجود بھی سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی سے اجتناب کرتی رہی اور بعض دیگر شواہد کی موجودگی میں عوام کو شک تھا کہ عسکریت پسند اور سیکورٹی فورسز آپس میں ملے ھوئے ھیں ۔ بعد میں کچھ عسکریت پسند عناصر یا تو حکومت کے کنٹرول سے باھر ھوگئے اوریا مصلحت کے تحت مخالف کیمپ میں بھیج دیے گئے۔
دوسرا بیانہ جاری تنازعہ میں خارجی قوتوں کے کردار کے بارے میں تھا کہ تباہی اور بربادی کے ذمہ دار خارجی سے زیادہ داخلی قوتیں ھیں۔آج بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک اندرونی دشمن ہے ۔ دشمن کو زک پہنچانے کیلئے بنائے گئے ھتھیار مطلب بعض عسکریت پسند آج بے قابو ھو چکے ھیں۔ اور وہی تربیت اور نظریاتی ھتھیار اب اپنے ملک کے خلاف استعمال کر رئے ھیں۔ ان بیانیوں میں ایک علاقائی امن کے بارے میں بھی تھا۔ جو علاقے میں امن اوراستحکام کیلئے تمام ھمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کا خواہاں تھا۔
اس کے علاوہ طالبان کے بارے میں یہ بیانیہ کہ طالبان نظریاتی طور پر قوم پرست نہیں بلکہ ریاست کی پروردہ ایک قوت ہے جو داخلی اور بیرونی قوتوں کی ایماء پر مذھب کے علاوہ پشتونوں کی قومی شناخت کو داغدار اور ثقافت کو آلودہ کر رہے ھیں ۔ طالبان پراجیکٹ کا داخلی ایجنڈا پشتون قومی شناخت اور اجتماعی سوچ کو کمزور کرنا تھا جو اپنی ماھیت میں بنیادی طور پر کسی حد تک سیکولر اور جمہوری سوچ تھی۔ اس طرح انتہاپسند اور تنگ نظر سوچ اور متشدد عمل کے زریعے طالبان کو ایک جاھل ، ضدی اور دھشت گرد بنا کر بالواسطہ یا بلا واسطہ پشتونوں کو بدنام کرنا بھی تھا۔
آجکل سی پیک کے حوالے سے بھی ایک بیانیہ موجود ہے ۔ جو راھداری منصوبے میں پشتونوں کے ساتھ دانستہ اور منظم انداز میں زیادتیوں کو چیلنج کرتی ہے اور پشتونوں کی آرزوں اور مطالبات کو اجاگر کرتی ہے۔