پاک-افغان تعلقات میں بڑھتی ھوئی کشیدگی اور تناؤ کے پیش نظر دونوں ممالک کے پالیسی ساز حلقوں میں تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے غوروحوض ھو رہا ہے ۔ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواھش کا اظہار اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دو ھفتوں میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے درمیان دو بار رابطہ ھوچکا ہے۔ دونوں ممالک کی میڈیا میں مصالحے دار اخباری شہ سرخیاں ایک طرف مگر حالیہ رابطوں سے دونوں طرف خیر سگالی بڑھی ہے۔ بیشک نئے پاکستانی آرمی چیف اور افغان صدر کے مابین رابطوں کا قیام اھم پیش رفت ہے۔
جب بھی پاک-افغان تعلقات پر کوئی مذاکرہ یا علمی کانفرنس ھو تی ہے تو سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کا ذکر ضرور ھوتا ہے ۔ بعض آزاد تجزیہ نگاروں کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی کی ایک وجھہ سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی بھی ہے ۔ سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کیا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ھیں ؟ اور آیا یہ پالیسی کامیاب رہی یا ناکام ؟ اور موجودہ دور میں یہ پالیسی کتنی دیرپا اور مطابقت رکھتی ہے؟
فوجی اصطلاح میں سٹرٹیجک ڈیپتھ مختصرا محاذ جنگ اور اھم صنعتی اور سیاسی مراکز کی بیچ فاصلے کو کہتے ھیں۔ مطلب یہ ہے کہ دشمن کے حملے کی صورت میں اھم مراکز یعنی اھم شہروں اور اھم اقتصادی، سیاسی اور فوجی تنصیبات کا محاذ جنگ سے فاصلہ کتنا ہے اگر فاصلہ زیادہ ہے تو اتنی زیادہ ڈیپتھ ھوگی ۔ ڈیپتھ کو دیکھنے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ دشمن کے کسی بھی ناگہاں یا خطرناک حملوں کی نتیجے میں نہ صرف اھم قومی اثاثے محفوظ رھیں بلکہ حملے سے سنبھلنے اور جوابی وار کیلئے تیاری کیلے محاذ جنگ سے دور محفوظ علاقے بھی ھوں ۔
اس پالیسی کے تحت پاکستان افغانستان میں اپنی من پسند حکومت کے قیام سے وہاں سٹرٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنا چاھتا ہے تاکہ اس طریقے سے انڈیا کے مقابلے میں ضروری ڈیپتھ حاصل کیا جاسکے اور انڈیا کی جارحیت کی صورت میں پاکستان اپنے قیمتی اثاثے افغانستان منتقل کرکے وہاں سے جوابی حملے کی منصوبہ بندی ، تیاری اور راھنمائی کرے۔
اس پالیسی کے نتیجے میں افغانستان میں ایک طرف پاک -افغان اور دوسری طرف پاک-انڈیا پراکسی وارز کی شروعات ھوئی۔ اگر پاکستان انڈیا کے خلاف سٹرٹیجک ڈیپتھ کا خواھاں تھا تو انڈیا اس پالیسی کو ناکام بنانے اور افغانستان سے اپنی روایتی دوستانہ تعلقات کو مذید مضبوط بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ پاکستان انڈیا کو افغانستان میں کوئی بھی رول دینے کیلئے تیار نہیں جبکہ انڈیا افغانستان کی تعمیر نو میں رول ادا کرنے کا خواھاں ہے ۔
سٹرتیجک ڈیپتھ پالیسی کے بنیادی اجزا کیا ھیں۔ ایک تو یہ پاکستانی پالیسی ساز افغانستان میں اندرونی معاملات میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ھیں۔ دوسرا وہ افغانستان میں ایک دوست حکومت کی بجائے ایک کٹھ پتلی حکومت چاھتا ہے۔ تیسرا افغانستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کے بجائے پاکستان کا ایک پانچویں صوبے جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ چھوتا یہ کہ وہ افغان قومی ادارواں مثلا فوج، پولس اور انٹلیجنس وغیرہ کی تشکیل اور مضبوطی سے خائف ہے ۔ اور پانچواں انڈیا کو افغانستان میں قدم جمانے سے روکنا۔
تقسیم ھند کے وقت پاکستان کے حصے میں انتہائی کم فوج اور فوجی سازوسامان آیا ۔ معاشی اور فوجی لحاظ سے طاقتور انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کمزور ملک تھا۔ اس وجہ سے پاکستان شروع ہی سے اپنی دفاع کے حوالے سے سوچتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے فوجی آمر فیلڈمارشل ایوب خان کے دور میں پاکستان اور افغانستان کی فیڈریشن کا خاکہ پیش کیا گیا یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں ڈیپتھ کی خاطر پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکی کی کنفیڈریشن کا آئیڈیا پیش کیا۔ بعد میں کسی اور شکل میں اور افغانستان کی شمولیت کے بغیر آر سی ڈی وجود میں آئی۔
سٹرٹیجک ڈیپتھ کا تصور یا بنیادی خدوخال سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ابھرنا شروع ھوگے تھے۔ جب تینوں جنگوں کے دوران یہ احساس ھوا کہ کم چوڑائی اور رقبے کی وجہ سے بہت سے پاکستانی شہر اور اھم اقتصادی اور فوجی تنصیبات کو جنگ کے دوران انڈیا آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے ۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایک جغرافیائی فیکٹر کے طور پر انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی سٹرٹیجک ڈیپتھ تین گنا کم ہے۔ جبکہ افغانستان کی جغرافیہ اور محل وقوع پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں بہترین ڈیپتھ دے سکتا ہے ۔
سال 1973 میں وزارت خارجہ اور اگلے سال آئی ایس آئی میں افغان ڈیسک قایم کیے گے۔ انجنیئر گلبدین حکمتیار اور دیگر افغان مجاھدین لیڈروں کو اس پالیسی کے تحت لایا گیا تھا۔ پالیسی ساز اداروں میں اسی کی دھائی میں سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی بننا شروع ھو گیا تھا ۔ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے دوران ملازمت پہلی دفعہ اس کا کھلے عام ذکر کیا۔
اس پالیسی کے حوالے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کا بیان ریکارڈ پر ہے جو انہوں نے دوران ملازمت دیا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سٹرٹیجک ڈیپتھ چاھتا ہے نہ کہ افغانستان کو کنٹرول کرنا۔ انہوں نے مذید کہا تھا کہ افغانستان کے بعض ریاستی اداروں مثلا فوج اور پولیس وغیرہ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے مبادا وہ پاکستانی سٹرٹیجک مفادات کے خلاف استعمال نہ ھو۔ انہوں کہا تھا کہ افغانستان کے ساتھ پرامن ، دوستانہ اور مستحکم تعلقات سے مغربی سرحدوں پر بہتر سیکورٹی صورتحال قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی ترک کرچکا ہے ۔ ان کے مطابق بیشک یہ پالیسی جو افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے تناظر میں وضع کی گی تھی نائن الیون تک پاکستان کی افغان پالیسی کا اھم جز رہا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان اور انڈیا کی جانب سے ایٹمی دھماکوں اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ ایٹمی ڈیٹرنس سے اب بات سٹرٹیجک ڈیپتھ جیسے نظرئیے افادیت کھو چکے ھیں اور اب بات بہت آگے جاچکی ہے ۔ اور جنگ کی صورت میں وسیع تباہی اور بربادی ھوگی۔
مگر اس کے باوجود یہ پالیسی کسی نہ کسی شکل میں ابھی تک موجود ہے ۔ آفغان مجاھدین کی حمایت کے پس پشت یہی پالیسی تھی طالبان پراجیکٹ کا ظہور اس پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ ابھی تک طالبان کے حمایت اور امداد اسی پالیسی کے تاحال جاری ہے حتی کہ تحریک طالبان پاکستان کا ظہور اسی پالیسی کا نتیجہ تھا یہ اور بات ہے کہ بہت سی وجوھات کی بنا پر کچھ پاکستانی طالبان دھڑے بے قابو ھوگے ھیں۔ امن تحریک کے تحت 2010 میں پاس کئے گے پشاور ڈیکلریشن میں انتہائی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی گی ہے ۔
کئی آزاد تجزیہ نگار سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کے مخالف اور اسے ملک کیلئے تباہ کن قرار دے رہے ھیں ۔ اس پالیسی کے تحت ملک میں انتہاپسندی ، عسکریت پسندی اور دھشت گردی بڑھی۔ عسکریت پسند اس پالیسی کے اھم زریعہ تھے۔ افغان طالبان کے حکومت کے خاتمے کے بعد موڈریٹ یعنی میانہ رو طالبان کی اصطلاح ایجاد ھوئی تاکہ پالیسی کو جواز مہیا کاور کسی نہ کسی شکل میں طالبان کی حمایت اور امداد جاری رکھی جاسکے۔ اس طرح افغان طالبان کی سپورٹ کیلئے قائم پاکستانی طالبان کے کچھ گروپ بے قابو ھونے کے بعد اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح ایجاد ھوئی۔ پالیسی ساز تو یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ان کے سٹرٹیجک اثاثے یعنی عسکریت پسند اب سٹرٹیجک لائبیلٹی بن چکے ھیں۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو کمیونسٹ رژیم کے خاتمے کے بعد یکے بعد دیگرے قائم حکومتوں نے سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کی کھلم کھلا یا دبے الفاظ میں مخالفت کی اور اس کے بعض اجزا جیسے ڈیورینڈ لائن کو افغان مجاھدین سے لیکر افغان طالبان تک نے تسلیم کرنے سے اجتناب کیا۔ اگر پاکستان دونوں ممالک میں اچھے ھمسائیگی اور برادرانہ تعلقات کے متمنی ہے تو سٹرٹیجک پالیسی کو مکمل طور پر ترک کرنا ھوگا اور افغانستان کے ساتھ برابری پر مبنی تعلقات استوار اور اس کی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم کرنا ھوگا ورنہ دونوں ممالک میں تناؤ اور کشیدگی برقرار رہیگی ۔ ڈیپتھ کیلئے دوستی اور بھائی چارے کی فضا ضروری ہے اب تک جو پالیسیاں چلائی گئی اس کے نتیجے میں کشیدگی اور تناو میں اضافہ ھوا ہے اور افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات میں خطرناک حد تک اضافہ ھوا ہے ۔ اسلیے اب غلط پالیسیوں پر نظر ثانی ناگزیر ھوگئی ہے۔ اور ساتھ میں پرانے مائینڈ سیٹ سے چھٹکارا ضروری ہے۔
تحریر: ایمل خٹک
سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ کار ایمل خٹک اخبارات اور جرائد میں انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے رہتے ھیں ۔ ان کا رابطہ ایمیل یہ ہے
aimalk@yahoo.com