5 مارچ 2014 کولکھی گئی تحریر تیمور کے بے گناہ قتل کے بعد میڈیا کسی بھی معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔ میڈیا کے نمائندے دن رات ایک کر کے عوام تک خبریں پہنچانے ک فرائض انجام دیتے ہیں۔ مختلف واقعات کی رپورٹنگ کے علاوہ صحافی ملک کی مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں کی سرگرمیاں اور ان کا موقف بھی عام عوام تک میڈیا کے ذریعے پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی نا انصافیوں اور بد عنوانیوں کو آزادانہ طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کا فوری طور پر متعلقہ حکومتی اداروں کو نوٹس لینا پڑتا ہے۔
پاکستان کے اہم بنیادی ستونوں میں شمار ہونے کے باوجود، صحافت سے وابستہ افراد ہروقت ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ حالانکہ سائنس کی ترقی کے بدولت اب ذرائع ابلاغ میں اتنی بہتری آ چکی ہے کہ میڈیا کو بہت فعال انداز میں چلایا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ میڈیا کے کردار سے خفا نظر آتا ہے۔ شکوہ عموما یہ کیا جاتا ہے کہ صحافی حضرات فلاں فلاں مسائل کو کسی کمی بیشی کے بغیر میڈیا پر کیوں نہیں لاتے۔
اکثر نشستوں میں جب بھی صحافت سے وابستہ افراد کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، کچھ اس طرح کی گفتگو کسی نہ کسی طرح ضرور ہو جاتی ہے۔ یار وہ فلاں جماعت والے اپنی خبر لگوانے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں۔ آج فلاں پارٹی والے بڑے ناراض تھے۔ آج فلاں رہنماء کا فون آیا تھا اپنی خبر اخبار میں نہ دیکھ کر تو وہ گالی دینے پر اتر آیا تھا۔ یہ وہ چند جملے اور الفاظ ہیں جو اکثر صحافیوں کی زبان پر ہوتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ صحافیوں کو اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالانکہ اگر فون کر کے دھمکیاں دینے والے اور گالی گلوچ کرنے والے ذرا سا بھی احساس رکھیں تو انہیں اپنے کیے پر ندامت ہو۔ اگر وہ اس بات کو سوچیں کہ آخر یہ صحافی جس کو میں نے ہراساں کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی آخر یہ بھی کسی ادارے کا ملازم ہے۔ اس سے اوپر بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس کی دی ہوئی خبر پر اثر انداز ہو کراسے نمایاں کر سکتے ہیں یا اشاعت سے روک سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ آج ایک خبر کے نہ لگنے پر ہم برہم ہو رہے ہیں لیکن یہی شخص ہمارے او ر ذرائع ابلاغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے ہماری بہت سی خبریں اسی کے توسط سے شایع بھی ہوئی ہیں۔ دل میں احساس ہو تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ جب سب لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے گھر اور بیوی بچوں سے دور، خطرات میں گھرے اور بہت ہی کم اجرت کی ملازمت کے تحت آپ کے کسی بھی ایونٹ کی کوریج کرنے آ جاتا ہے، خود اپنی جان پر کھیل کر یہ شورش زدہ علاقے کی صورتحال سے ہمیں آگاہ کر رہا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اس جانب جانے کی غلطی نہ کر لے۔
ایسی بات جو اس کے اختیار میں نہیں اس پر اتنا برہم ہونا، اور بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی بلکہ اب تو میڈیا دفاتر پر حملے، صحافیوں کا اغواء و قتل عام سے بات بن چکی ہے۔ حالانکہ اگر کسی کو اس کا جائز حق یا کوریج نہیں مل رہی تو اس میں قصور فلیڈ میں موجود صحافیوں کا نہیں بلکہ میڈیا گروپس کے مالکان کا ہوتا ہے اور جس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے وہ صحافی کی صورت میں اپنی آواز کا گلہ دبانے کے بجائے، متعلقہ افراد تک اپنی شکایت درست طریقے سے پہنچائے۔ گولی اور بندوق کے ذریعے اپنی بات منوانے والے آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس طرح وہ کسی کے دل میں اپنی عزت و جگہ ہرگز نہیں بنا سکیں گے۔ آج جو طاقت و اختیارات میں ہونے کے باعث اپنے غلط دباو کے ذریعے کوئی ناجائز کام کروا بھی رہے ہیں تو نہ یہ طاقت زیادہ دیر تک رہتی ہے اور نہ وقت ایک جیسا رہتا ہے۔ پھر جن کو آپ طاقت کے بل بوتے پر دبائیں گے، جب بھی ان کو موقع ملا وہ گزشتہ قرض سودسمیت چکا دیں گے۔ ایسے میں بنی ہوئی ساکھ اور ملی ہوئی عزت سب ختم ہو جائے گی۔
ماضی کی بہ نسبت اب شعبہ صحافت سے وابستہ افراد زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کے باعث تاحال وہ بہت سی بدعنوانیوں اور جرائم کو منظر عام پر نہیں لا سکتے۔ صحافت کے شعبے میں دیانتدار، ایماندار اور دردِ پاکستان رکھنے والے صحافیوں کی ہرگز کمی نہیں ہے جو کہ اپنے اس پیشے (صحافت) کو ایک مقدس پیشہ اور قوم کی امانت سمجھ کر اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کر رہے ہیں مگر بعض اوقات وہ بیچارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ سچ کو سچ کس طرح لکھیں۔ اگر لکھتے ہیں تو پھر اس کا جو نتیجہ ہوتا ہے وہ کسی سے اب پوشیدہ نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت سے وابستہ افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ کیوں کہ یہ معاشرے کا آئینہ اور اس کے عکاس ہیں۔ جو افراد اس آئینے کی توڑنا چاہتے ہیں کہ اس بات کو ہرگز نہ بھولیں کہ آئینہ توڑ دینے سے ان کا بھیانک چہرہ کچھ دن تک تو لوگوں کے سامنے بے نقاب سے تو بچ جائے گا لیکن اس کی یہ بدصورتی ختم نہیں ہو گی۔